جنیوا میں عالمی ماہرین کے ایک گروپ نے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد میں اضافے سے متعلق شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس میں احمدی شہریوں کے ماورائے عدالت قتل، گرفتاریاں اور نظربندیاں، عبادت گاہوں پر حملے، آزادی اظہار کی روک تھام اور پرامن اجتماع پر پابندیاں شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 'ہم پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کی رپورٹس سے پریشان ہیں۔ ہم پاکستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ایکشن لیں۔ ان پرتشدد حملوں اور نفرت اور امتیاز کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔'
ماہرین نے حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان میں پیش آنے والے چند واقعات پر روشنی ڈالی، بشمول 8 جولائی 2024 کو سعد اللہ پور میں دو احمدیوں اور 4 مارچ 2024 کو بہاولپور احمدیہ مسلم کمیونٹی کے صدر کا ماورائے عدالت قتل۔ 2024 کے آغاز سے ہی احمدی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملوں کی اطلاعات ملی ہیں، جن میں سے کچھ کے نتیجے میں عبادت گزار شدید زخمی ہوئے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ 'احمدیہ کمیونٹی، ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں کو حملوں اور توڑ پھوڑ سے مؤثر تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔'
انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کے دوران احمدی عبادت گزاروں کی مبینہ طور پر گرفتاریوں اور حراستوں کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا، کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا احمدی شہریوں کو مسلمانوں کی مذہبی رسومات میں شرکت کو روکا جا سکے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
'احمدیوں کو اپنے عقائد کے مطابق پرامن طریقے سے عبادت کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ امتیازی گرفتاریاں اور نظربندیاں جو مذہب یا عقیدے کی پابندی کو روکتی ہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو ظاہر کرتی ہیں، بشمول آزادی اظہار، پرامن اجتماع اور انجمن کی آزادی۔' ماہرین نے کہا کہ 'عدالتوں کی جانب سے انہیں ہراساں کرنا احمدیوں کے خلاف غیر ریاستی عناصر کے ذریعے تشدد کو معمول پر لانے کا کام کرتا ہے۔'
ان خلاف ورزیوں کو پاکستان میں احمدیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر مخاصمت کے ماحول کی عکاسی سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے 23 جون 2024 کو ایک قرارداد کی منظوری کو سراہا، جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں بشمول مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی قرارداد خوش آئند قدم ہے۔ تاہم امتیازی گفتگو کا مقابلہ کرنے کے لیے اس طرح کی نیک نیتی کی کوششیں اس وقت تک بے اثر ہوں گی جب تک کہ وہ اس کے اصل محرکات کو ختم نہیں کرتیں۔ ان میں توہین رسالت کے قوانین اور امتیازی قانونی دفعات شامل ہیں جو احمدیوں، ان کے قانونی نمائندوں اور اتحادیوں، اور دیگر مذاہب یا عقیدہ رکھنے والی اقلیتوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین خطرے میں ڈالتے ہیں۔'