اس ریلوے لائن کی لمبائی 9,289 کلومیٹر ہے جو ماسکو سے مشرق کی طرف ولادی وستوک تک پھیلی ہوئی ہے یہ دنیا کی لمبی ترین ریلوے لائنوں میں سے ایک ہے جو یورپ کے ساتھ ساتھ چین، جاپان، کوریا، ویتنام اور جنوبی ایشیاء کو بھی روس کے ساتھ ملاتی ہے۔
انیسویں صدی عیسوی میں سائبرین خطے میں ناقص روڈ ہونے کے سبب ترقی کی رفتار سست روی کا شکار تھی، روڈ بہتر نہ ہونے کے سبب لوگوں کو سفری مشکلات کا سامنا تھا۔ چار پہیوں والی گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ سال کے پانچ مہینوں میں سفر دریاؤں کے ذریعے ہوتا تھا۔ سردیوں کے باقی مہینوں میں تانگے سفر کے لیے استعمال کیے جاتے تھے انہی راستوں پر جہاں پہلے سفر کشتی کے ذریعے ہوتا تھا بعد میں وہی دریا برف بن جاتے تھے اور انہی راستوں پر تانگوں کے ذریعے سفر ہوتا تھا، سفر میں شدید سردی کے سبب بہت مشکلات آتی تھیں لوگ زندگی کی بازی بھی ہار جاتے تھے۔
1849ء میں بھاپ سے چلنے والی کشتی متعارف کرائی گئی شروع میں اسے چلانا اتنا آسان نہ تھا 1857ء کے بعد پھر بھاپ سے چلنے والی کشتیوں میں بہتری ضروری آئی مگر سفر کی مشکلات کم نہ ہوئیں کیوںکہ یہ دریا بہت بڑے تھے سفر کو بہتر بنانے کے لیے سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ یہاں ریلوے لائن بچھائی جائے۔
سائبریا میں پہلی ریلوے لائن کا 1851ء میں افتتاح ہو چکا تھا، شروع میں یہ ریلوے لائن( Iskutsk-chita ) تک تھی، 1880ء تک سائبرین ٹرانس ٹریک پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی معاشی حالات کے سبب اور دیگر وجوہات بھی شامل تھیں 1880ء میں لوگوں نے بہت زیادہ تعداد میں درخواستیں دیں اور مطالبہ کیا کہ اس ریلوے لائن کو ضرور بچھایا جائے اور جلدی ہی اس کی تعمیر شروع کی جائے ان درخواستوں کی بدولت حکومت وقت مجبور ہوگئی اور جلدہی اس کی تعمیر کا اعلان کردیا، یہ بھی کہا گیا کہ سنٹرل روس کو سائبرین کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ دس سال لگ گئے نقشہ بنانے اور حکومت سے منظوری لینے میں مختلف روٹس بنائے گئے۔
پہلا روٹ :
southern Routs =via ,Kazakhstan,barnaul,Abakan and Mongolia
دوسرا روٹ :
Northern Rout =via Tayuman, Tinplate, Tomsk, Yeniseysk and Baikal Amur mainline even through Yakutsk
ان لائنوں کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا 62000ہ زار لوگوں نے اس کام میں حصہ لیا سائبرین ٹرانس ٹریک کے لیے مالی امداد ایک یورپی Boran Henri Hottingur نے کی جو Hottingur family سے تعلق رکھتے تھے آغاز میں اس منصوبے کے لیے 35ملین پاؤنڈز مختص کیے گئے بعد میں مزید اضافہ کیا گیا آخر کار یہ منصوبہ 90ملین پاؤنڈز میں مکمل ہوا _
9 مارچ 1891ء میں روسی حکومت نے سائبیریا کےچاروں اطراف ریلوے لائن بنانے کا اعلان کیا۔ 19,مئی1891ء میں Tsar Nicholas نے ولادی وستوک میں ریلوے لائن کی تعمیر کا آغاز کیا۔ بائکل جھیل جو 640 کلو میٹر لمبی اور 1600 میٹر گہری ہے یہاں پر سیرم بائکل کے نام سے ریلوے لائن بچھائی گئی جو جھیل کے دوسرے حصے پر ختم ہوجاتی ہے۔
1897ء میں برف کو توڑنے والی ٹرین بنائی گئی جسے فیری ایس ایس بائکل کا نام دیا گیا 1900ء میں ایک اور چھوٹی ٹرین بنائی گئی جسے فیری ایس ایس انگارہ کا نام دیا گیا۔ بائکل جھیل سے چار گھنٹے کی کراسنگ کی وجہ سے دو ریل ہیڈ کو آپس میں جوڑ دیا گیا ایک روسی ایڈ مرل اور ایکسپلو ررنے بائکل اور انگارہ کو ڈیزائن کیا۔ بائکل پندرہ بوائلرز چار فنلز اور 64 میٹر لمبائی پر مشتمل ہے یہ 24 ریلوے کوچیز کو لے کےجاسکتی ہے جبکہ انگارہ اس سے چھوٹی ہے جو دو فنلز پر مشتمل ہے 1904ء میں سیرم بائکل کے مکمل ہونے کے بعد اس پر فیری ایس ایس کو چلا گیا لیکن مشکل اور پہاڑی راستہ ہونے کے سبب سیرم بائکل پتھروں کے گرنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہی، روسی سول وار نے بائکل کو مکمل طور تباہ کردیا لیکن انگارہ بچ گئی۔
سائبرین ٹرانس ٹریک کے ذریعے روس کے جنوبی علاقوں میں رہنے والے بہت سارے کسانوں نے نقل مکانی کی۔ 1906اور 1914کے درمیان کی ایک اندازے کےمطابق چار ملین روسی کسانوں نے یوکرین اور جنوبی علاقوں سے ہجرت کی روس اور جاپان کے درمیان ہونے والی 1904-1905ء کی جنگ میں سائبرین ٹرانس کا اہم کردار رہا ۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران سائبرین ٹرانس ٹریک دفاعی سازوسان سے لے کر فوجیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔
آج بھی سائبرین ٹرانس ٹریک بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے روس کی 30 فی صد تجارت اسی ریلوے لائن کے ذریعے ہوتی ہے یہ ریلوے لائن بہت سے غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے یہ سفر سات دنوں پرمشتمل ہے اور ہر سیاح کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ سفر ضرور کرے لیکن زیادہ تر مقامی آبادی اسی ریلوے لائن کے ذریعے سفر کرتی ہے اگر آپ نے ماسکو سے ولادی وستوک تک سفر کرنا ہے تو آپ کے پاس 1600ڈالر سے لے کر 800 ڈالر تک رقم ہونی چائیے اس سفر کے دوران سگریٹ نوشی ممنوع ہے اگر آپ سگریٹ نوشی کریں گے تو آپ کو بھاری جرمانہ ہوسکتا ہے ۔
موجودہ دور میں سائبرین ٹرانس ریلوے دو لاکھ کنٹینر ہر سال یورپ کی منڈیوں تک پہنچاتی ہے 2010ء کے مطابق روس اور چین کے مابین ٹریفک کا حجم بڑھ گیا ہے یہ تقریباً 66 میلن ٹن ہے جو زیادہ تر اسی ریلوے لائن کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ 2008ء میں کارگو کا سامان لے جانے میں گیارہ دن لگتے تھے ٹرین کی فی گھنٹہ رفتار بڑھا کر 80 سے 90کردی گئی اب اس سفر میں سات دن لگتے ہیں ۔
جس طرح دریائے وولگا کو روس کے دست بازو کا درجہ حاصل ہے اسی طرح سائبرین ٹرانس ٹریک کو روس کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سائبرین ٹرانس ٹریک دنیا کے ایک تہائی حصے کو ڈھانپے ہوئے ہے جس میں مشرق سے لے کر مغرب تک اس میں دس ٹائم زون آتے ہیں، سائبرین ٹرانس ریلوے کا 19فی صد حصہ یورپ کی سرحدوں سے گزرتا ہے جبکہ 81فی صد حصہ ایشیاء کی سر حدوں سے گزرتا ہے اس سفر کے دوران سب سے بڑا دریائے پل دریائے امور کا ہے جس کی لمبائی 2612میٹر ہے یہ پل 1999ء میں تعمیر کیا گیا، راستے میں آنے والے شہروں کہ تعداد 87ہے جبکہ دریاؤں کی تعداد 16ہے سفر کے دوران درجہ حرارت 28ڈگری سے 34ڈگری تک رہتا ہے یہ ریلوے لائن روس کی مرکزی ریلوے لائن ہے جو روس کے زیر سایہ بہت سے چھوٹے اور بڑے شہروں کے علاوہ یورپ اور ایشیائی علاقوں کو آپس میں جوڑتی ہے-