یہ میرے لئے بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔ شہباز شریف اس وقت بھی وہی باتیں کرتے تھے جو اب کرتے ہیں۔ کامران خان نے ایک پروگرام میں ان سے پوچھا کہ کیا آپ بھی سمجھتے ہیں مسلم لیگ ن کا مقابلہ کسی خلائی مخلوق سے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ قرآن مجید میں خلائی مخلوق کا ذکر کہیں نہیں ہے۔ البتہ جنات کا ذکر ہے۔ منطق سے کہیں دور اس جواب کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے بھائی سے اختلاف کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے لیکن ان کی پالیسی سے متفق بہرحال نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ووٹر کے لئے یہ چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔ ووٹر اتنا ٹی وی نہیں دیکھتا جتنا ہم دیکھتے ہیں۔ وہ تو اپنے ارد گرد دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے لئے اس کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ اسی تجربے کی بنیاد پر چند دن قبل ایک مضمون میں عرض کیا تھا کہ مسلم لیگ ن نے 5.8 فیصد شرح نمو اور ماضی کی سویلین حکومتوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا کر مقتدر قوتوں کا بنایا یہ myth خاک میں ملا دیا ہے کہ یہ سویلین کسی کام کے نہیں۔ ہمیشہ ناکام ہی ہوتے ہیں۔
شہباز شریف کا یہ مؤقف روزِ اول سے واضح ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں چاہتے۔ پارٹی کی اندرونی میٹنگز میں وہ ماضی میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے حق میں نہیں لیکن اسے سیاست سے باہر نکالنے کے لئے انہیں کم از کم دس سال طیب اردوان کی ترکی جیسی کارکردگی دکھانا ہوگی، لوگوں کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کے مسائل کا حل جمہوریت میں ہے اور ان کی جماعت کے پاس ہے، تبھی یہ سڑکوں پر نکلیں گے اور جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔
اب آتے ہیں نواز شریف صاحب کے مؤقف اور ان کے سامنے موجود مخمصے کی طرف۔ گذشتہ دنوں مسلم لیگ نواز کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بیک وقت لاہور اور لندن میں بذریعہ ویڈیو لنک ہوا جس میں جماعت کی اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ اجلاس خفیہ تھا مگر روداد باہر آ ہی گئی۔ سینیئر صحافی عامر متین نے GTV پر پروگرام کرتے ہوئے بتایا کہ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ مسلم لیگ نواز آیا نواز شریف اور مریم نواز کے اس بیانیے کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے جس کا اظہار گوجرانوالہ میں کیا گیا تھا یا پھر شہباز شریف کی بات مانتے ہوئے درمیانی راستہ نکالا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کر کے اپنے لئے ایک قدرے ہموار رستہ بنایا جائے، جسے مسلم لیگ ن level playing field اور مخالفین ڈیل کا نام دیتے ہیں۔
اجلاس میں ایک موقع پر نواز شریف صاحب کو بتایا گیا کہ اس دفعہ تو جو ہوا سو ہوا۔ وسطی پنجاب میں ن لیگ کا ووٹ بنک مضبوط تھا، اس خطے کے 'الیکٹ ایبل' افراد بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑ کر نہیں گئے۔ لیکن 2023 کے انتخابات کے بعد بھی اگر مسلم لیگ ن اقتدار میں نہ آئی تو 80 فیصد لوگ پارٹی چھوڑنے کو تیار ہیں۔ نواز شریف کو یہ نہیں کہا جا رہا تھا کہ آپ ایک طرف کی رائے کے حق میں فیصلہ دیں یا دوسری طرف کی رائے کے۔ انہیں یہ کہا جا رہا تھا کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے، ایک بار کر لیں۔ تاکہ سب کو پتہ ہو کہ آگے مستقبل کیا ہے۔ اگر تو مفاہمت کی سیاست کرنی ہے تو مفاہمت تو ایسے ہی ہوتی ہے جیسے شہباز شریف صاحب کر رہے ہیں۔ اگر مزاحمت کرنی ہے تو بھی سو بسم اللہ لیکن بس یہ ذہن میں رکھیں کہ اگلے 10 سے 15 سال تک کے لئے پھر اقتدار کو بھول جائیں۔
اس حوالے سے ایک اقلیتی رائے یہ بالکل موجود تھی کہ جتنا بھی عرصہ لگے، مزاحمت کا رستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مگر اکثریت اس حق میں نہیں تھی۔ اجلاس میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پارٹی کے کسی بڑے سے بڑے قائد سے جا کر پوچھ لیں کہ مستقبل میں پارٹی کی پالیسی کیا ہوگی، اس کو نہیں پتہ۔ آپ پارٹی کے سینیئر قائدین سے بھی پوچھ کر دیکھ لیں۔ احسن اقبل سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ انہیں بھی نہیں پتہ پالیسی کیا ہے۔ ایک دن یاد کرواتے ہیں ان کی حکومت نے دفاعی بجٹ میں کتنا اضافہ کیا تھا۔ اگلے دن ٹوئیٹ کرتے ہیں عثمان کاکڑ کا جنازہ جمہوریت میں عوام کے یقین کا غماز ہے۔ یہ بے یقینی نچلی سطح تک بھی منتقل ہو رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلم لیگی ووٹر کو نہیں پتہ کہ اس کی جماعت کا اگلا مؤقف کیا ہوگا۔ کیا وہ اس سے مختلف ہوگا جو ابھی تک ہے؟ اگر ہاں تو پھر ابھی تک کیا کر رہے تھے؟
اس گومگو کی صورتحال سے پارٹی کو نکالنے کے لئے سب سے پہلے تو نواز شریف صاحب کو خود کو اس کیفیت سے نکالنا ہوگا۔ اس کے لئے وہ دونوں آپشنز پر اچھی طرح غور کر لیں۔ پہلی آپشن یہ ہے کہ جنگ لڑنی ہے اور یہ جنگ طویل ہوگی کیونکہ اس میں دشمن انتہائی طاقتور جب کہ اپنے فوجیوں میں کوئی دم خم نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے نوجوان خون کو پارٹی میں شامل کرنا ہوگا اور فی الحال پارٹی میں سب سے زیادہ نوجوان افراد عابد شیر علی اور کیپٹن صفدر صاحبان ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے سٹوڈنٹ سیاست کی مسلم لیگ ن نے حوصلہ شکنی کی ہے۔ اب اگر پارٹی میں نئی قیادت نہیں ابھر رہی، سڑکوں پر ورکر نہیں ہے، عوام کو جلسوں میں لانے والے موجود نہیں ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ایسی سیاست کا یہی انجام ہونا تھا۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ خواہش عوام کی طاقت سے مقتدر قوتوں کو باہر نکالنے کی ہے۔ ایسے تو نہیں ہوگا۔ گراؤنڈ پر لیڈرشپ خود موجود نہیں، نوجوان طبقے میں نئے لیڈر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ دکاندار اپنی دکان سنبھالے گا یا جلسے میں آئے گا؟ وہ تو کہے گا بند کرو ہڑتالیں، جلوس، مورچے، میرا کام خراب ہو رہا ہے۔
کیا اب یہ کرنے کا ارادہ ہے؟ ذرا پچھلے تین سال میں چیک کر کے بتائیں کہ کن پارٹی کارکنان کو کن کارناموں کی بنیاد پر کون سے عہدے تفویض کیے گئے ہیں، ان میں سے کتنوں نے حالیہ پی ڈی ایم جلسوں میں آپ کو نتائج دیے ہیں۔ یاد رہے کہ لاہور جلسہ خادم رضوی کے جنازے کو چھوڑیے، عمران خان کے 2011 اور 2013 جلسے جتنا بڑا بھی ہوتا، گوجرانوالہ کا جلسہ 2011 کے مسلم لیگ نواز کے اپنے جلسے جتنا بڑا بھی ہوتا تو اس وقت صورتحال مختلف ہوتی۔ ان جلسوں کو ناکام نہ صرف ماننا چاہیے بلکہ اس ناکامی کے اسباب پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ جو کہ بنیادی طور پر تین تھے: 1) بیانیے کی کمزوری یہ ہے کہ مستقبل کا کوئی خواب نہیں دکھایا جا رہا تھا، محض ماضی کا ماتم تھا؛ 2) نوجوان قیادت سرے سے موجود ہی نہیں تھی؛ اور 3) موجودہ یا دستیاب قیادت یا تو ڈر گئی یا اس میں اب اتنی سکت ہی نہیں رہی، یا پھر اعلیٰ قیادت کی غیر موجودگی میں اس نے ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے نہیں نبھائیں۔ تینوں صورتوں میں مستقبل کی کسی تحریک میں ان پر تکیہ کرنا سولہ آنے کا گھاٹہ ہے۔
اور پھر کیا گارنٹی ہے کہ 15 سال بعد آپ کچھ نیا پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوں گے؟ یاد رکھیے کہ اس ملک میں ایک جماعت نے 24 سال کی جدوجہد کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات میں تمام تر کوششوں کے باوجود شکست دی۔ نتیجے میں اسے اقتدار نہیں سونپا گیا، ملک توڑ دیا گیا۔ ایک اور لیڈر اپنے نظریے کی خاطر پھانسی چرھا، اگلے 11 سال یہ ملک ضیائی آمریت کے کوہلو میں پستا رہا۔ بھٹو کی بیٹی کو اقتدار دینا پڑا لیکن اختیار نہ ملا۔ میاں صاحب سے بہتر اس بات کو کون جان سکتا ہے؟ اور 20 مہینے میں حکومت ختم۔ خود نواز شریف صاحب کے ساتھ کیا کیا ہو چکا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ حقیقی جمہوری جدوجہد کرنے کے موجودہ لیگی فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ ٹیئر میں کوئی تپڑ نہیں ہیں۔ نئی قیادت ابھارنے کے لئے آپ کو کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ بڑی آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ کبھی ایک کو اندر کرو، کبھی دوسرے کو۔ کوئی کیوں آ کر ساتھ کھڑا ہوگا؟ لے دے کر ایک عمران خان کی ناکامی سے امید لگائی جا سکتی ہے۔ فی الحال تو قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اگر کوئی نئی آپشن نہ ہوئی تو اسے ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کے لئے چین سے خراب کرنی پڑ چکی ہے، سعودی عرب سے خراب کر لی ہے، امریکہ سے بھی خراب کر لیں گے وقت پڑا تو لیکن مانیں گے نہیں۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا، ملک توڑ دیا تھا، سبق نہیں سیکھا۔ اب کیوں سیکھیں گے؟
دوسری طرف آپشن وہی طیب اردوان والا ہے جس کا شہباز صاحب پرچار کرتے ہیں۔ وہ کیا کوئی بھی اسٹیبشلمنٹ سے ڈکٹیشن نہیں لینا چاہتا۔ میری حکومت ہو، میں کسی سے پوچھ کر کیوں کروں بھئی؟ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ کسی کے میں اللہ رحم ڈال دے تو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن زمین پر تو ایسے معجزے اب فلموں میں بھی نہیں دکھائے جاتے۔ اس کے لئے آپ کو اسی فارمولے پر عمل کرنا ہوگا جس پر 2013 سے 2018 تک عمل کیا۔ جیسا اوپر بیان کیا، یہ کارکردگی ہی تھی جس نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو مقبول بنایا۔ لیکن اس کارکردگی نے آپ کو پانچ سال اور مزید عوام کے دلوں میں جگہ بنائے رکھنے میں مدد دی۔ مگر ہمیشہ تو یہ باتیں یاد نہیں رہتیں نا۔ جس نے 2005 سے 2012 تک کی لوڈ شیڈنگ دیکھی، اس نے تو ضرور یاد رکھا ہوگا، لیکن اب یہاں تو نئے کالج، یونیورسٹی کے بچوں کو بسنت کے اچھے دن بھی نہیں یاد، لوڈ شیڈنگ کے برے دن کیا یاد ہوں گے؟
ہاں مگر اس راستے میں ایک مشکل ہے۔ لوگوں کی باتیں سننا پڑیں گی۔ ان لوگوں کی بھی تحکمانہ انداز میں تجاویز سننا ہوں گی جنہیں آپ بیک جنبشِ قلم برطرف کر سکتے ہیں۔ آئین آپ کو اجازت دیتا ہے۔ لیکن آئین پر عمل کروانے کی طاقت نہ ہو تو واقعی یہ ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کیا ہے؟ وہ طاقت اس کو عوام ہی بخش سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے اسے ابھی مزید وقت درکار ہے۔ بس خطرے کی بات یہی ہے کہ کہیں شہباز صاحب کو نہر والے پل پہ بلا کہ ماہی پھر سے غائب نہ ہو جائے۔