ذرائع کے مطابق وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ قانونی ٹیم کی سربراہی کریں گے، معاون خصوصی عطاء اللہ، عرفان قادر اور قانونی مشیر کمیٹی میں شامل ہوں گے، نواز شریف کے کیسز کی پیروی کرنے والے امجد پرویز اور دیگر وکلا کو بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی ٹیم نواز شریف کے عدالتوں میں جاری کیسز کی پیروی کو تیز بنائے گی۔ نواز شریف کی نااہلی اور کیسز کے خاتمے کے لئے کام کو تیز بنایا جائے گا۔
قانونی ٹیم نواز شریف کی واپسی میں قانونی رکاوٹوں کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرے گی۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی نے قانون میں ترمیم کر کے کسی رکن پارلیمنٹ کی نااہلی کو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک محدود کر دیا۔ جس سے تاحیات پابندی والے افراد کے لیے عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی۔
اس سے قبل 16 جون کو سینیٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کیا تھا۔
سینیٹ نے الیکشن ایکٹ کی اہلی اور نااہلی سے متعلق سیکشن 232 میں ترمیم کے ذریعے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال واضح کردی۔ بل میں کہا گیا کہ اہلیت اور نااہلی کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت ایسی ہو جیسا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کیا گیا ہے۔ آئین میں جس جرم کی سزا کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نااہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔
مزید کہا گیا کہ جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار، طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی وہاں اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔
بل میں تجویز کیا گیا کہ سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ یا کسی بھی عدالت کے فیصلے یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکے گا۔
مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کی شق ون ایف کے تحت پانچ سال سے زیادہ کی نااہلی کی سزا نہیں ہو گی۔ متعلقہ شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے۔جس کے بعد عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مل گیا۔
بل کے مطابق الیکشن کمیشن نیا الیکشن شیڈول یا نئی الیکشن تاریخ کا اعلان کر سکے گا۔
واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
“پاناما پیپرز” لیکس کے نتیجے میں نواز شریف کے خلاف جاری مقدمے میں عدالت کی 5 رکنی بینچ کی جانب سے یہ فیصلہ سنایا گیا تھا۔
دوسری جانب 15 دسمبر 2017 کو پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو عدالت عظمیٰ نے ’’بے ایمان‘‘ ہونے پر نااہل قرار دے دیا۔
فیصلہ کمرہ عدالت نمبر 1 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سنایا تھا۔