2014 میں داعش تین بڑے گروپوں، یعنی شامی، عراقی اور احمد خیشگی کی سربراہی میں تین تا چار ہزار سعودی جنگجوؤں پر مشتمل تھی۔ اب شام میں انہیں شکست ہو چکی ہے لیکن وہ بدستور ان دونوں ممالک کیلئے خصوصاً اور گذشتہ تین دہائیوں میں جنگ کی تباہ کاریوں کے شکار ممالک کیلئے خطرے کا باعث بنے رہیں گے۔
جے ایف جیفری کے بقول’’عراق اور شام میں اس وقت داعش کے پندرہ سے بیس ہزار مسلح جنگجو ہیں اورانہیں جس رفتار سے ختم کیا جا رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلتے جا رہے ہیں۔‘‘
https://www.youtube.com/watch?v=x7cb4fWssFQ
2014 میں راقم نے ایک مضمون بعنوان ’’ داعش کون ہیں‘‘ لکھا جو ملک کے معروف انگریزی اور اردو اخبارت میں ستمبر 2014 میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں داعش بارے لکھتے ہوئے کہا تھا کہ داعش کا ابھرنا عالم اسلام کیلئے کوئی نئی چیز نہیں ہے، البتہ دوسروں کیلئے یہ ایک عجوبہ ہے۔
داعش کے ظہورمیں آنے کا سبب وہ مظالم، نفرت اور محرومیاں و ناانصافیاں ہیں جو ایک عرصے سے ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہیں۔ اب وہی محروم اور پسے ہوئے لوگ اپنے انداز سے ان ناانصافیوں کا انتقام لینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اس قسم کا پہلا واقعہ سینتیسویں ہجری (37 H) میں خوارج کی شکل میں رونما ہوا جنہوں نے نہروان کے مقام پر خلیفہ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ ان کے غصے کی وجہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ جمل اور جنگ صفین تھی جس میں عالم اسلام کی یہ مقتدرترین اور قابل احترام ہستیاں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ اس بنا پر خارجی ان سے متنفر ہو گئے تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=ADXHCWHu_Xw
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان، عراق اور شام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ایران کے خلاف جابرانہ پابندیاں حالیہ ’نفرت کی لکیر‘ کھینچنے کا باعث بنی ہیں جبکہ افغانستان، پاکستان، شام، عراق اور فلسطین میں موجود سنی شیعہ تفریق کو دانستہ طور پر ابھار کر اندرونی تصادم کو ہوا دی گئی ہے۔
روشن خیالی کو پروان چڑھانے کی آڑ میں سیاسی اسلام کو رد کر دیا گیا ہے حالانکہ مسلمانوں کا پختہ یقین ہے کہ انسانی بقا کا محور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام سے ہی ممکن ہے جبکہ روشن خیالی کا پرچار کرنے والے انسان کو خودمختار سمجھتے ہوئے اسے نعوذباللہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات پر انسان کو فوقیت حاصل ہے۔
حد تو یہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں عرصہ دراز سے شیعہ اور سنی باہم اخوت و محبت کے رشتوں میں بندھے چلے آ رہے ہیں، یہاں بھی قومی یکجہتی توڑنے کیلئے ہر قسم کے مذموم حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اوائل اسلام میں ظاہر ہونے والے خارجیوں نے اپنی قابل احترام ہستیوں سے بد دل ہو کر انتقامی کاروائیاں شروع کی تھیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=FV-jB6PE6Fk
اسی طرح داعش کی انتقامی کارروائیوں کی وجہ شیعہ سنی تصادم اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اسلام دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے جس نے انہیں اپنے ممالک کے سربراہوں سے متنفر کر دیا ہے۔ شام اور عراق میں شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے سے ایک بار پھرجنگ جمل اور جنگ صفین کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔
کیا یہ کافی نہیں تھا کہ امریکہ کی سرپرستی میں 14 فروری کو وارسا میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شیعہ سنی تصادم کو مزید پھیلانے کا نیا منصوبہ تیار کیا گیا ہے؟ اور اس کی ذمہ داری اسرائیل کو دی گئی ہے کہ وہ ایران کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرے، اور بھارت کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ پاکستان سے نمٹے تاکہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے علاقے بھارتی بالادستی میں آ جائیں۔
صدر ٹرمپ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں۔ ان کے خیال میں عسکری قوت کے استعمال سے وہ داعش پر قابو پا کر اسے ختم کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال ناقص ہے کیونکہ مسئلہ عسکری قوت کی اہلیت سے کہیں زیادہ گھمبیر نوعیت کاہے۔ امریکہ نے القاعدہ کو ختم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسامہ اور دوسری قیادت کو ختم کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود القاعدہ نہ صرف موجود ہے بلکہ کئی ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور پہلے سے زیادہ تباہ کن شکل اختیار کر تی جا رہی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=BgcOW9OVKWc
بنیادی سوال یہ ہے کہ داعش سے نمٹنے کیلئے کیا کیا جائے؟
اس گٹھ جوڑ میں بھارت اور اسرائیل کی شمولیت سے مسلمانوں کیلئے خصوصاً اور پوری دنیا کیلئے عموماً خطرے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ عالم اسلام نے خارجیوں پر اسلامی نظام کی وساطت سے قابو پا لیا تھا اور یہی وہ طریقہ ہے جو آج کی مہذب دنیا کو اپنانا چاہیے۔
https://www.youtube.com/watch?v=kJ2FVEdAm7M
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے امریکہ اوراس کے اتحادی ٹھنڈے دل و دماغ سے حکمت عملی وضع کریں اور منصوبہ بندی کریں لیکن بدقسمتی سے اس وقت انہیں معلوم نہیں کہ اس مسئلے پرکیسے قابو پانا ہے۔ عسکری طاقت کا استعمال ان کی غلط منصوبہ سازی کا جزو بن چکی ہے۔ سابق امریکی صدر اوبامہ اس حقیقت سے آگاہ تھے، تبھی تو انہوں نے کہا تھا کہ:
’’یہ بات باعث شرم ہے کہ ایک مخالف نظریات کا حامل شخص ہمارا صدر ہو جس کی کوئی واضح خارجہ پالیسی بھی نہ ہو تو آپ اس سے توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ کوئی احمقانہ اور غلط راستہ اختیار نہیں کرے گا‘‘۔
اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ’’امریکی ایمبیسی مشرقی یروشلم منتقلی ہو جائے‘‘ اور ’’گولان ہائیٹس‘‘ پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا جائے۔ یہ فیصلے تو جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔