جب پاکستان نے بنگلہ دیش سے 1971 کی جنگ پر معذرت کی

06:54 AM, 26 Mar, 2021

علی وارثی
26 مارچ 1971 وہ دن تھا کہ جب مشرقی پاکستان نے پاکستان سے علیحدگی اور ایک آزاد ریاست بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا۔ حالات و واقعات گذشتہ کئی سالوں سے اور خصوصاً آخری چند ماہ میں تیزی سے اس جانب بڑھ رہے تھے۔ دسمبر 1970 میں ہوئے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان سے سوئیپ کر دیا تھا لیکن ان کا چھ نکاتی ایجنڈا جنرل یحییٰ اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کو نامنظور تھا اور اسی بنیاد پر حکومت ان کے حوالے کرنے میں ٹال مٹول کی جا رہی تھی۔ جب کئی ہفتوں تک قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا تو 7 مارچ 1971 کو شیخ مجیب نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک فوج اپنے بیرکس میں واپس نہیں جاتی، حکومت عوام کے نمائندوں کے ہاتھوں میں نہیں جاتی اور مارشل لاء اٹھایا نہیں جاتا، وہ بھی اب اسمبلیوں میں جانے کو تیار نہیں تھے۔ پاکستانی حکومت کو اس روز بھی خدشہ تھا کہ شیخ مجیب آزادی کا اعلان کر دیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 25 مارچ کو فوج میں موجود کچھ بنگالی افسران نے شیخ مجیب کو خبر دی کہ اگلے روز ایک بہت بڑا آپریشن شروع ہونے جا رہا تھا۔ شیخ مجیب نے اپنے گھر پر عوامی لیگ کے کچھ سینیئر عہدیداروں کا اجلاس بلایا جنہوں نے ان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ اپنی گرفتاری سے پہلے آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیں۔ اس سے قبل پچھلے چند روز سے جنرل یحییٰ خان اور شیخ میجیب کے درمیان انتقالِ اقتدار پر مذاکرات جاری تھے لیکن 25 مارچ کو یہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہو گئے اور جنرل یحییٰ نے مارشل لاء لگا کر آپریشن کا فیصلہ کر لیا۔

شیخ مجیب اس وقت بھی کسی نہ کسی تصفیے کی امید رکھتے تھے اور جب ان کے ساتھیوں نے ان کو آزادی کا اعلان کرنے کا مشورہ دیا، وہ اس وقت بھی اسے ماننے کو تیار نہ تھے کیونکہ انہیں اب بھی یہ امید تھی کہ وہ جنرل یحییٰ کو قائل کر لیں گے اور متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم بنیں گے کیونکہ وہ انتخابات جیت چکے تھے۔ لیکن بالآخر یہ امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب ان تک اطلاع پہنچی کہ کچھ ہی دیر میں انہیں گرفتار کیا جانے والا ہے۔ اس وقت شیخ مجیب نے آزادی کے اعلان کا پیغام بھیج دیا اور کچھ ہی دیر بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اعلان اگلے روز یعنی 26 مارچ کو بنگالی باغیوں کے ریڈیو براڈکاسٹنگ سنٹر سے نشر کیا گیا اور دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اسے رپورٹ بھی کیا گیا۔ تاہم، جنگِ آزادی کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے نائب سربراہ عبدالکریم کھانڈکر کے مطابق شیخ مجیب نے کوئی پیغام ریکارڈ نہیں کروایا تھا اور ان کے دستِ راست تاج الدین احمد کے مطابق انہوں نے ایسا کوئی پیغام ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس آپریشن کو سرچ لائٹ کا نام دیا گیا جو کہ 16 دسمبر 1971 کو جنگ بندی کے معاہدے تک جاری رہا۔ اس دوران ہزاروں جانیں گئیں، ایک عدد مکمل جنگ بھی ہوئی اور بالآخر بنگلہ دیش ایک آزاد ملک بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج نے لاکھوں کی تعداد میں بنگالیوں کا قتلِ عام کیا۔ بنگالی اس تعداد کو 30 لاکھ تک لے جاتے ہیں۔ آزاد ذرائع اس تعداد کو لاکھوں میں بتاتے ہیں۔ بنگالی لکھاری سرمیلا بوس کے مطابق بنگلہ دیش کی جانب سے کیے گئے دعوے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں۔ بنگال میں پاکستانی پالیسیوں کے ناقدین اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان نے بنگال میں ہوئی زیادتیوں پر معافی نہیں مانگی لیکن یہ درست نہیں ہے۔

11 اپریل 1974 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے خبر چھاپی کہ اس سے ایک روز قبل یعنی 10 اپریل کو پاکستان نے بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ کے دوران اپنی فوج کی جانب سے کی گئی زیادتیوں پر معذرت کی ہے۔ یہ معذرت عین اس وقت سامنے آئی جب بنگلہ دیش کی جانب سے 195 پاکستانی شہریوں پر جنگی جرائم کے تحت ہونے والے مقدمات کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ فیصلہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے وزرا خارجہ کے درمیان پانچ روز لگاتار چلنے والے مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے تحت کیا گیا جو کہ 10 اپریل کی رات کو سائن کیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لئے بہتر تھا کیونکہ پاکستان کو اس کے 195 شہری واپس مل گئے جن پر بنگلہ دیش قتل اور ریپ کے مقدمات چلانا چاہتا تھا جب کہ پاکستان کی جانب سے کسی حد تک یہ تسلیم کر لیا گیا کہ اس کی فوج کی جانب سے کچھ زیادتیاں کی گئی تھیں جسے بنگلہ دیش ایک معذرت تسلیم کرنے کو تیار ہو گیا۔ معاہدہ بیک وقت اسلام آباد، ڈھاکہ اور نئی دلی میں جاری کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی جانب سے کمال حسین، بھارت کی طرف سے سوارن سنگھ اور پاکستان کی جانب سے عزیز احمد نے دستخط کیے۔ معاہدے کی زبان مفاہمانہ رکھی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا کہ "حکومتِ پاکستان کوئی بھی جرائم اگر ہوئے ہیں تو ان کی مذمت کرتی ہے اور اس پر بیحد افسوس کا اظہار بھی کرتی ہے"۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی استدعا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام ماضی کی غلطیوں کو معاف کر دیں اور بھلا دیں تاکہ ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اسی طرح شیخ مجیب، وزیر اعظم بنگلہ دیش، نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے عوام 1971 میں ہوئی تباہی اور مظالم کو بھلا دیں اور ایک نئی شروعات کریں۔

اخبار نے لکھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے کی گئی معذرت اتنی واضح نہیں تھی جتنی بنگلہ دیش چاہتا تھا لیکن بنگلہ دیشی اور بھارتی افسران اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے کچھ فوجیوں نے زیادتیاں کی تھیں۔ پاکستان کی جانب سے اس معاہدے پر دستخط کیے جانا بھی ایک طرح کی معذرت تھی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے 93 ہزار جنگی قیدی اگلے چند ماہ میں پاکستان کو واپس کر دیے گئے۔ قریب دو لاکھ بنگلہ دیشی شہری بھی بنگلہ دیش کو واپس کر دیے گئے۔

قریب پانچ لاکھ بیہاری خود کو پاکستانی شہری سمجھتے تھے اور یہ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے تھے۔ پاکستان نے ایک لاکھ بیہاریوں کو واپس لے لیا تھا اور پاکستانی حکام نے اخبار کو بتایا تھا کہ وہ 1 لاکھ 40 ہزار بیہاریوں کو ہی واپس لے گا۔ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بیہاری بنگلہ دیش میں موجود ہیں جو خود کو پاکستان کا شہری سمجھتے ہیں اور پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ 2009 میں چھپنے والی وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک ڈھائی لاکھ کے قریب بیہاری بنگلہ دیش میں مہاجر کیمپوں میں موجود تھے جو پاکستان آنا چاہتے تھے۔ تاہم، 1978 میں پاکستان نے بنگلہ دیش میں رہ جانے والے تمام بیہاریوں کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی تھی۔ 2015 میں چھپنے والی کتاب ' پاکستان پیراڈاکس' میں مصنف کرسٹوف جیفرلو لکھتے ہیں کہ 1988 میں بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر سے ان بیہاریوں کو پاکستان واپس لانے کے حوالے سے پیش رفت ہوئی تھی لیکن اس وقت کی بینطیر بھٹو حکومت اس حوالے سے اس لئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی کہ یہ بیہاری پاکستان آ کر کراچی میں مہاجر علاقوں میں بسیں گے جس سے شہر کا نسلی میک اپ مزید بگڑ جائے گا۔
مزیدخبریں