بچی کی ماں کو یہ پکا یقین تھا کہ یہ بچی بڑے ہو کر آرٹسٹ بنے گی۔ مگر کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہے اس وقت کے بازارِ حُسن کا ماحول۔ وہ ماحول جس میں ہر بچی کو رقص یعنی ڈانس اور موسیقی سکھائی جاتی۔ اسے ایک فنکار کے طور پر تراشا جاتا۔ مگر ثمینہ کی ماں اس سے کچھ زیادہ چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی بچی کوئی عام نہیں بلکہ انٹرنیشنل لیول کی آرٹسٹ بنے۔ ایسی فلم ہیروئن کہ جو اتنی مقبول ہو کہ لالی وڈ کی مشہور ترین ایکٹریسز میں سے ایک بن جائے۔ ویسے بھی حرم گیٹ ملتان نے بڑی نامی گرامی اداکارائیں بالی وڈ کو دی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ثمینہ کی ماں کے دل میں یہ خیال آیا۔ خیر وقت کا پہیہ گھوما۔ ثمینہ کو ہیروئن بنانے کے لیے پوری فیملی لاہور شفٹ ہوگئی۔ اور پھر Numerology یعنی علم الاعداد کے ایک ماہر نے ثمینہ کا نام رکھ دیا ریما ۔ یعنی سفید ہرن۔
جی ہاں! خوش نصیبی کی علامت سمجھے جانے والی سفید ہرن۔ بس پھر کیا تھا نام تبدیل کرتے ہی لگ گئے ریما کو بھاگ اور پھر ایک دن ایسا آیا جب لالی وڈ ڈائریکٹر جاوید فاضل نے ریما کو دیکھتے ہی اپنی فلم میں سائن کرلیا۔ یہ فلم 21 ستمبر 1990 کو ریلیز ہوئی اور نام تھا اس کا بلندی۔
19 سال کی ریما کی یہ پہلی فلم تھی اور پہلی فلم ہی سپر ڈپر ہٹ ہوگئی۔ اس فلم نے ریما کو شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔ ریما بالی وڈ کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی ہیروئن بن گئیں۔ تمام پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی خواہش ہوتی کہ ان کی فلم کی ہیروئن ریما ہوں۔
حد تو یہ ہے کہ وہ باقی کاسٹ ریما سے پوچھ کر لیتے۔ ریما کو اتنا عروج ملا کہ اگر وہ آج تک کی سب سے مقبول لالی وڈ ہیروئن نہیں تو ٹاپ 3 مقبول ترین ہیروئنز میں ضرور ہیں۔
ان کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کو اس قدر بڑی میگا اسٹار نہ مل سکی۔ ریما کا نام فلم کی کامیابی کی گارنٹی بن گیا۔ ان کے ساتھی اداکار شان نے ان سے نامناسب رویہ رکھا۔ حد تو یہ ہے کہ دونوں کے اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ انہوں نے 1994 میں ریما کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ریما سے حسد اس قدر بڑھ گیا کہ ان کو ناکام کرنے کے لیے نئی ایکٹریسز لالی وڈ میں لائی گئیں ۔ انہیں خوب پروموٹ کیا گیا۔ مگر ریما کے سامنے کوئی نہ ٹِک سکی۔ ریما کی شہرت کا گراف اوپر ہی جاتا رہا۔ اور ایک وقت آیا کہ لڑکیاں ایسے نام رکھ کر فلم انڈسٹری میں آئیں جن میں ‘’ر’’ ، ‘’ی’’ اور ‘’م’’ آتا تھا مگر ریما صرف ایک ہی رہی۔
ریما کہتی ہیں کہ ان کی ساتھی اداکارائوں کے جب سب جتن ناکام ہو گئے تو انہوں نے ان کے گھر پر فائرنگ کرا دی اور ان پر کالا جادو تک کرا دیا ۔ مگر ریما کو پتہ لگ گیا کہ ان پر کالا جادو ہوا ہے اور یہ کس نے کرایا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کی ساتھی ایکٹریسز کا ان سے حسد ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ریما کہتی ہیں کہ ایک فلم ہیروئن نے انہیں زہر دینا کا پلان بنایا اور اس کام کے لیے انہوں نے ایک شخص کو ایک لاکھ روپے دیے مگر خوش نصیبی کہ وہ اس زہر سے محفوظ رہیں۔ انہیں خدا نے بچا لیا۔ مگر اس بندے نے بتا دیا کہ فلاں ہیروئن نے انہیں زہر دینے کے ایک لاکھ روپے دیے ہیں۔
جب ریما نے اس ہیروئن سے پوچھا تو اس نے اعتراف کر لیا اور کہا جب لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں تو وہ حسد کرتی ہے۔ اس لیے آپ کو قتل کرنے کا پلان بنایا۔ ریما کہتی ہیں کہ انہوں نے اس ایکٹریس کو اس لیے معاف کر دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں واحد کمانے والی تھی۔ یوں پولیس کو اس واقعے کا پتہ ہی نہیں لگنے دیا تھا۔ مگر یہ سب کچھ ریما کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
وہ نمبر ون رہیں اور کوئی دوسری ایکٹریس ان کے قریب بھی نہیں تھی۔ جب کسی ہیروئن کو اتنی کامیابیاں مل رہی ہوں تو پھر اسکینڈلز بھی تو بنتے ہیں ناں۔ ریما کا بابر علی، شان اور سیاستدان شیخ رشید جی ہاں وہی گیٹ نمبر 4 والے ''او سوری سوری'' ہمارا مطلب ہے لال حویلی والے شیخ رشید سے اسکینڈل خوب مشہور ہوا۔ بابر علی کے ساتھ انہوں نے ایک بار بولڈ سینز شوٹ کرائے تو لوگوں نے پسند بھی کیا اور آسمان بھی سر پر اٹھا لیا۔
پھر ریما کو معافی مانگنی پڑی اور انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ کبھی ایسے بولڈ سینز شوٹ نہیں کرائیں گی۔ ویسے ریما نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کے اتنے سارے اسکینڈلز بنے اور ان میں سے سارے کے سارے ہی غلط نہیں تھے بلکہ کچھ درست بھی تھے۔ اب یہ تو نہیں پتہ کہ کون کون سے درست تھے مگر ان کا شیخ رشید کے ساتھ اسکینڈل ٹاک آف دا ٹاؤن رہا۔
ہر شخص کی زبان پر اسی اسکینڈل کا ذکر تھا۔ ایک کتاب 'پارلیمنٹ سے بازارِ حُسن تک' میں بھی اس اسکینڈل کا ذکر ہے۔ اس کتاب کے مطابق ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک بار شیخ رشید جو اس وقت بھی وفاقی وزیر تھے نے اداکارہ انجمن کو خوشخبری دی کہ انہیں نیف ڈیک ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔ انجمن بے چاری شوہر اور بچوں سمیت اسلام آباد آگئیں تاکہ یہ ایوارڈ لے سکیں۔ مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ شیخ رشید نے تو لال حویلی میں رقص وسرور کی محفل سجا رکھی ہے۔ انہوں نے رات کو انجمن کو اکیلے لال حویلی بلایا پر وہ نہ آئیں۔ شیخ صاحب فون کرتے رہ گئے پر انجمن نہ مانیں۔ پھر پنڈی بوائے نے ریما کو فون کیا اور بلا لیا۔ اور پھر ریما نے اس رات کو یادگار بنا ڈالا۔ کیا خوب پارٹی ہوئی۔ اور پھر اسی نیف ڈیک ایوارڈ کی تقریب ہوئی جس میں یہ ایوارڈ انجمن کے بجائے ریما کو دے دیا گیا۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ جب ریما شیخ صاحب سے یہ ایوارڈ لینے آئیں تو میوزیشنز نے شادی کے گیت کی دھن بجا دی۔اس پر پروگرام کے کمپیئر دلدار پرویز بھٹی نے معاملہ سنبھالتے ہوئے کہا کہ شیخ صاحب یہ باجے والے بھی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں۔
خیر شاید میوزیشنز نے صحیح دھن ہی بجائی تھی۔ کیونکہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ شیخ رشید نے ریما کی ماں سے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ انہیں اپنی فرزندی میں لے لیں۔ اس پر انہوں نے یہ کہہ کر شیخ صاحب کو دفعہ 'ٹرخانوے' لگا دی تھی کہ جب تم ریما کے ساتھ باقاعدہ اپنا کام کر لیتے ہو تو پھر شادی کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس جواب پر شیخ صاحب مطمئن ہوگئے تھے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے ؟ کیونکہ یہ اسکینڈل اس قدر ہِٹ تھا اور اتنے عرصے ہٹ رہا کہ بس۔ یہاں تک کہا گیا کہ شیخ رشید ریما پر لاکھوں وارتے ہیں۔
مشہور ہے کہ ایک بار شیخ رشید نے ریما کو 2 لاکھ کا چیک دیا۔ اس چیک کا نمبر تھا 82447124 ۔ ریما نے یہ چیک یو بی ایل سے 13 جولائی 1993 کو کیش کرایا تھا۔ اب اس میں کتنی حقیقت ہے کتنا فسانہ، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یہ بالکل حقیقت ہے کہ ایک بار روزنامہ پاکستان نے خبر لگائی تھی کہ شیخ رشید اور ریما فلاں تاریخ کو فلاں وقت فلاں فلائٹ سے سوئٹزرلینڈ جا رہے ہیں اور اس ٹرپ کو ارینج کیا ہے ان کے ایک مشترکہ دوست نے۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور اس ڈیٹ کو ریما اور شیخ صاحب سوئٹزرلینڈ ڈیٹ پر نہیں گئے تھے کیونکہ بھانڈا جو پھوٹ چکا تھا۔ یہ واقعہ بھی کتاب پارلیمنٹ سے بازارِ حُسن تک کے صفحہ نمبر 177 کے دوسرے پیراگراف میں موجود ہے۔ مگر یہ اسکینڈلز بھی ریما کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ ان کا عروج ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ فلمیں تو کر ہی رہی تھیں امریکا اور یورپ میں شوز بھی کرنے جاتیں۔ وہاں پر انڈین ایکٹرز بھی آتے۔
انڈین ایکٹرز کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ریما اور عمر شریف آگے آگے ہوتے۔ ریما کا ڈانس وہاں بہت پسند کیا جاتا اور انہیں انڈینز پاکستان کی مادھوری ڈکشٹ کہتے تھے۔ ظاہر ہے ریما کا ڈانس تھا ہی اس قدر زبردست کہ بس۔ وہ ناصرف ایک بہترین ایکٹریس تھیں بلکہ شاید سب سے اچھا ڈانس کرنے والی پاکستانی ہیروئن بھی۔ اور جناب ریما صرف ہیروئن ہی نہیں رہیں بلکہ انہوں نے دو فلمز کی ڈائریکشن بھی دی ہے اور انہیں پروڈیوس بھی کیا ہے۔
پہلی فلم ہے 2005 میں ریلیز ہونے والی کوئی تجھ سا کہاں۔ اس میں ریما ہیروئن اور معمر رانا ہیرو تھے۔ یہ فلم سپر ڈپر ہٹ ہوئی تھی۔ اور' لو میں گم' کی ریما ہیروئن بھی تھیں اور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی۔ اس فلم میں جاوید شیخ، ندیم اور بالی وڈ کامیڈین جونی لیور بھی تھے۔ یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی اور ان کی اب تک کی آخری فلم ہے۔ ویسے تو ریما نے 200 سے زائد فلمیں کیں پر ان کو اپنی سب سے اچھی فلم لگتی ہے نکاح۔
خیر فلموں کو ٹاٹا بائے بائے کہہ دینے کے بعد انہوں نے نومبر 2014 میں ایک پاکستانی American Cardiologist ڈاکٹر طارق شہاب سے شادی کر لی تھی۔ اور شادی سے پہلے انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے تمام اسکینڈلز اور افیئرز کے بارے میں کھل کر بتا دیا تھا۔ اب ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریما نے شادی کے بعد ایک بار پھر پڑھائی اسٹارٹ کی اور وہ بھی امریکا میں۔ وہ اب پروگرام ہوسٹ بھی کرتی ہیں اور اینکر بھی ہیں۔ ریما کو ان کے شاندار کیرئیر پر پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نواز گیا ہے۔
اور ہاں یہ تو ہم آپ کو بتانا بھول ہی گئے کہ ریما اب ریما خان کہلاتی ہیں۔ ویسے خان ریما خان کے والد کے نام کا حصہ ہے، ان کے شوہر کے نام کا نہیں۔