ذرائع کے مطابق اس قلت کی وجوہات میں کرونا کے سبب ایک ماہ امپورٹ بندش نے بھی سپلائی چین توڑ دی، بارڈر بند ہونے کے سبب ایرانی ڈیزل کے بجائے ملکی ڈیزل کی کھپت بڑھی جس کا نہ منصوبہ بنا نہ ہی اس کی پیش بندی ہوئی۔ تیل کمپنیز یہ بھی دعویٰ کر رہی ہیں کہ بھارت میں تیل کی قیمت پاکستان کے مقابلے دُگنا ہونے کے سبب پیٹرول وہاں اسمگل ہورہا ہے۔
جیو نیوز کے مطابق اس بار تیل سپلائی میں کمی اور پمپس بند ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیمتوں میں کمی سے ہونے والے بھاری نقصان کے سبب ریفائنریز نے پیداوار محدود کر رکھی ہے۔ حکومتی وارننگز نظر انداز کی جارہی ہیں اورکمپنیاں تیل ذخیرہ پورا رکھنے کی بنیادی شرط بھی پوری نہیں کر رہیں جو کہ ان کے کاروباری لائسنس کی بنیادی شرط ہے۔
ذرائع کے مطابق کمپنیز کی جانب سے تیل کی پیداوار اور ترسیل میں توازن اور تسلسل برقرار رکھنا انکے لائسنس کی بنیادی شرط ہے تاہم وہ اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور پیٹرولیم کی وزارت اور اوگرا صورتحال پر ہمیشہ کی طرح محض خاموش تماشائی بنے ہیں۔
تیل سپلائی میں کمی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں جہازوں کی دستیابی مشکل یا مہنگی ہوگئی ہے۔
قلت کی ایک اور وجہ تیل درآمد کرنے میں تاخیر بھی ہے۔ جیو نیوز کے مطابق وزارت پیٹرولیم نے جون امپورٹ منصوبہ فائنل کرنے میں کافی غیر معمولی تاخیر کی اور تقریباً مئی کا آدھا مہینہ گزرنے کے بعد جون امپورٹ فائنل ہوئی۔
اس حوالے سے ترجمان پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا ہے کہ ملک کی طلب پوری کرنے کیلئے پیٹرول کا کافی اسٹاک موجود ہے، ملک میں گیارہ روز کیلئے پیٹرول کا اسٹاک موجود ہے۔
ترجمان پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق ملک میں پیٹرول کا 2لاکھ 55ہزار ٹن کا اسٹاک موجو د ہے، کیماڑی میں 58ہزار ٹن پیٹرول کا جہاز لگ چکا ہے، مارکیٹنگ کمپنیوں کو تیل سپلائی کیلئےلاجسٹک موومنٹ تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کے کافی اسٹاکس ہیں عوام اضافی خریداری نہ کریں۔