تاریخی شواہد کے مطابق ارطغرل بت پرست غیر مسلم تھے؟

08:11 AM, 26 May, 2020

نیا دور
آج کل سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ترکی ڈرامہ ’ ارطغرل‘ کا خوب چرچا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی کہانی ہے اور پاکستانیوں کو اپنی تاریخ سے روشناس کرانے کے لئے یہ ڈرامہ ضرور دیکھنا چاہیے۔

‏ترکی کی تاریخ پر ایک بڑا علمی کام چار ضخیم جلدوں پر مشتمل Cambridge History of Turkey ہے، جس کی تدوین میں ترک اور عثمانی تاریخ پر اتھارٹی پروفیسر ثریا فاروقی معاون مدیر کے طور پر اور ان کے علاوہ دیگر ترک مؤرخین بھی شامل تھے۔

اس کی پہلی جلد میں جو 1071 سے 1453 کے زمانے سے متعلق ہے، ارطغرل کا نام صرف ایک جگہ، صفحہ 118 پر، مذکور ہے۔ مصنف کے نزدیک ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور اس کی موجودگی کا پتہ اس کے بیٹے عثمان کے ایک سکے سے چلتا ہے۔ مصنف کےالفاظ ہیں:

"We know nothing about the life of Ertugrul, and his existence is independently attested only by a coin of his son Osman"


‏اردو میں اس سلسلے میں سب سے زیادہ معروف اور پڑھی جانے والی کتاب ڈاکٹر محمد عزیر کی دو جلدوں پر مشتمل ’دولتِ عثمانیہ‘ ہے۔ مشہور علمی ادارے دارالمصنفین، اعظم گڑھ، کی شائع کردہ اس تاریخ کا دیباچہ سید سلیمان ندوی نے لکھا اور اس  کتاب کا مقصد مسلمانانِ ہند کو ترکوں کے کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔



یہ بھی پڑھیے: ارطغرل بمقابلہ اتاترک: آپ کا ہیرو کون؟







‏ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں کہ سلیمان شاہ اور ارطغرل غیر مسلم تھے اور قبیلے کا پہلا شخص جس نے اسلام قبول کیا ارطغرل کا بیٹا عثمان تھا۔ اس بات کی طرف توجہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ پروفیسر فراز انجم نے دلائی ہے جنہوں نے اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں ڈاکٹر عزیر کی اسی کتاب کا حوالہ دیا ہے جس سے ہم اپنی ایک پچھلی ویڈیو ارطغرل بمقابلہ کمال اتاترک میں بھی حوالہ دے چکے ہیں۔



ڈاکٹر عزیر ایک مغربی مؤرخ Herbert Adams Gibbons کی شہادت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسٹر ہربرٹ گبنس نے اپنی مستند تالیف ’اساس سلطنت عثمانیہ‘ کو شائع کر کے یہ تازہ تحقیق پیش کی کہ سغوت میں بودوباش اختیار کرنے کے وقت عثمان اور اس کے قبیلہ کے لوگ بت پرست تھے۔ وہ براہِ راست ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تیرہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں خراسان اور ماورا النہر کے دوسرے علاقوں کی جو قومیں ایشیائے کوچک کی سرحدوں پر نمودار ہوئیں، ‏ان کے اسلام لانے کا کوئی صریحی ذکر کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ خود عثمانیوں کے مؤرخ نشری کے بیان سے بھی صاف اشارہ ملتا ہے کہ عثمان کا مورثِ اعلیٰ سلیمان شاہ اور اس کے ساتھی، جو اپنے وطن سے نکل کھڑے ہوئے، غیرمسلم تھے۔ بارہویں صدی عیسوی اور اس کے بعد کے سیاحوں کی بکثرت شہادتوں سے بھی ‏یہ معلوم ہوتا ہےکہ یہ قومیں بت پرست تھیں، ان مختلف ترکی قبیلوں نے جو اس زمانے میں ایشیائے کوچک میں داخل ہوئے اپنے آپ کو ایک اسلامی ماحول میں پایا۔ عثمان اوراس کے قبیلے کے اسلام لانے سےعثمانی قوم پیدا ہوئی۔ اس تبدیلیِ مذہب ہی کا نتیجہ تھا کہ 1290 کے بعد عثمان کی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ ‏ ارطغرل اور عثمان ایک دیہاتی سردار کی حیثیت سے سغوت میں سیدھی سادھی زندگی بسرکرتے تھے، ان کی اس زمانہ کی کسی جنگ یا فتح کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں۔ ارطغرل کے تعلقات اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بالکل صلح و دوستی کے تھے۔ نشری کا بیان ہے کہ اس ملک کے کافر و مسلم دونوں ارطغرل اوراس کے لڑکے کی عزت کرتے تھے۔ ‏کافر و مسلم کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ پھر دفعتاً ہم عثمان کو اپنے پڑوسیوں پرحملہ آور ہوتے اور ان کے قلعوں کو فتح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک ایسا تبلیغی جوش ہے جو صرف ان ہی لوگوں میں پایا جاتا ہے جنہوں نےحال ہی میں مذہب تبدیل کیا ہو‘‘۔



یاد رہے کہ ارطغرل کے باپ کا نام سلیمان شاہ ہونے کے حوالے سے بھی شکوک پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کے ایک حقیقی کردار ہونے کی واحد شہادت عثمان کے نام کا ایک سکہ ہے جس میں اس کا نام ’عثمان بن ارطغرل بن قندوز الپ‘ لکھا گیا ہے۔ سلیمان شاہ کو پہلی مرتبہ ارطغرل کا باپ 1465 میں لکھے گئے انوری کے ’دستورنامے‘ میں کہا گیا ہے۔

ان دو مستند کتابوں کی شہادت ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ڈرامے کے ‏ ارطغرل کا تاریخ کے ارطغرل سے کوئی تعلق نہیں۔ تاریخ کا ارطغرل تو شاید مسلمان بھی نہیں تھا اور اگر مسلمان تھا بھی تو صلیبیوں اور منگولوں کے خلاف جہاد کی وہ ساری تفصیلات جو ڈرامے میں دکھائی گئی ہیں وہ اقبال کے الفاظ میں

ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے

ڈرامہ آپ کو پسند ہے تو اسے افسانہ سمجھ کر ضرور دیکھیے، ‏لیکن خدارا اسے اسلام کا ڈرامہ نہ بنائیے۔ گئے زمانوں میں عظیم انسانوں سے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں کہہ کر انہیں خدا اور بھگوان کا درجہ دے دیا تھا۔ آج ہم خدا تو نہیں کہتے لیکن جھوٹے سچے ہیرو ہم نے خوب گھڑ رکھے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایسے بتوں کی پہلے ہی بہتات ہے۔ براہِ مہربانی باہر سے درآمد کر کے ماحول کو مزید پراگندہ نہ کریں۔
مزیدخبریں