اس بار کا متوقع ٹاکرا ننگی آنکھ سے دیکھنے والوں اور ملک کے کہلائے جانے والے ملحدوں کے درمیان تھا۔ متحارب گروہ، مفتی منیب الرحمان اور فواد چودہدری کے صورت میں اپنے پہلوان اتار چکے تھے۔ شائقین بھی اس ’ٹھا پھا‘ سے رگڑا کھانے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے، اس سے پہلے کہ اشارہ ملنے کے ساتھ یہ ہاتھا پائی نزاع کی شکل اختیار کر لیتی۔
شاید قدررت کو ہی قوم کی حالت زار پر رحم آ گیا، قدرت نے فریقین کی تشنگی بجھانے کے لئے کچھ اس طرح کا بندوبست کیا کہ دونوں امیدوار ہی ایک دوسرے کو دھول چٹانے سے بچ گئے۔ فواد چودھری صاحب جیت کا سہرا پہنتے وقت اپنی’سائنس‘ لڑانے والی حکمت پر نازاں رہے جب کہ مفتی صاحب بھی بطور فاتح اپنا بھرم رکھنے میں کامیاب ہو گئے کہ اندھوں کو ’بینائی‘ دینے کی وجہ وہ بنے۔ اور یوں اس ملی جلی کاوش کی بدولت کراچی تا خیبر مکین خلاف معمول ایک ساتھ ہی اپنا مذہبی تہوار منانے میں کامیاب ہو گئے۔
موازنہ کیا جائے تو یہ جدل ہم پلوں کے درمیان ہر گز نہیں تھا۔ کہاں دوربین سے آنکھیں ٹکائے مفتی صاحب اور کہاں سائنسی زرہ بکتر میں ملبوس چودھری صاحب۔ لیکن یہ بھی قطعاً زیادتی ہو گی اگر ہم اتحاد و یگانگت کے اس ’سنگین‘ مظاہرے میں قصور صرف فواد چودھری کی ’سائنس‘ کو ٹھہرائیں، کیونکہ مساوی ستائش کے حقدار مفتی منیب صاحب بھی ہیں۔ اللہ بھلا کرے مفتی صاحب کا جنہوں نے چودھری صاحب سے رکھی عداوت کو صرف ان کی ذاتی ’حیثیت‘ اور ان کے ’نماز روزوں‘ تک ہی محدود رکھا، ورنہ تو ان کو کون روک سکتا تھا اگر وہ سائنس کو بھی بیچ میں لے آتے؟
دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں یہ ایک جان جوکھم والی بحث ہے کہ رویت ہلال کے معاملے میں سائنس، دین کے کام میں مداخلت کرتی ہے یا دین سائنس کے کام میں آڑے آتا ہے، کیونکہ اگر یہ مباحثہ آمنے سامنے بیٹھ کر کرنے کی کوشش کی جائے تو صد فیصد یقین ہے کہ تھوڑی دیر بعد غیر روایتی امیدوار، اپنے روایتی مقابل کے ’ہتھے‘ چڑھ جائے گا۔ تو اس نکتے سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ رویت ہلال کمیٹی کو قمری کلینڈر میں کیوں ’فرسودگی‘ نظر آتی ہے، سو ہم غور و فکر کا دائرہ رویت ہلال کمیٹی کی مقصدیت تک محدود رکھتے ہیں۔
ایوب خان کے قائم کردہ اس ادارے کی بنیاد رکھنے کی وجہ تو پورے ملک میں ایک دن کا ہی روزہ اور ایک دن کی ہی عید کا تعین کرنا تھا۔ تو کوئی بتا سکتا ہے کہ کتنی ایسی عیدیں گزری ہیں جن پر رویت ہلال کی شہادت کی وجہ سے یہ فریضہ خوش اسلوبی سے نمٹا ہو؟ کیا شہادتوں کی اس دوڑ میں بحثیت منتظم سرکار کا فرض نہیں کہ خلاف ورزی کرنے والے کسی ایک فریق کے خلاف کارروائی کرے؟ اور اگر اس ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی ’روندنی‘ مقصود ہے تو ’سفید ہاتھی‘ پر سالانہ 36 سے 40 لاکھ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ نیت میں گھاس کی حفاظت کا جذبہ ہے تو منتظم کے پاس اس کا واحد حل گھاس کے گرد باڑ لگا کر اس پر چوکنا ہو کر پہرہ دینا ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس بار ہاتھیوں نے دلچپسی نہیں دکھائی یا پہرے دار کو اونگھ نہیں آئی۔ لیکن دونوں صورتوں میں فواد چودھری داد کے مستحق ہیں۔ آخر اس ملک میں کوئی تو ایسا ہے جس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ان 80، 80 سال کے بابوں کو ٹوک سکے، جو آج بھی کوٹھوں چڑھ کر چاند دیکھنے جیسی حرکتیں کر رہے ہیں۔