ذرائع کے مطابق وزیراعظم ، وزیر قانون ، مشیر داخلہ اور ایف بی آر کی جانب سے بھی درخواستیں دائر کی گئیں ہیں ، صدر کی جانب سے درخواستوں کی سماعت دوبارہ کرنے کیلئے نئی درخواست دائر کی گئی ، صدرمملکت نے از خود نوٹس دائرہ اختیار کے تحت آئینی درخواست دائر کی ، 70 صفحات پر مشتمل درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو فریق بنایا گیاہے ۔
ایکپریس ٹریبیون کے عدالتی رپورٹر حسنات ملک نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کی منع کرنے کے باوجود وزیر قانون فروغ نسیم نے حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دوسری ریویو پٹیشن دائر کرنے پر راضی کر لیا حالانکہ دوسری دفعہ ریویو پٹیشن کا کوئی اصول موجود ہی نہیں۔
https://twitter.com/HasnaatMalik/status/1397497784023068675
https://twitter.com/HasnaatMalik/status/1397535175853199364
انہوں نے مزید لکھا کہ توقعات کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے حکومتی اپیل کو لینے سے معذرت کر لی ہے۔ ضابطے کے مطابق درخواست نہ لینے پر رجسٹرار آفس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جائے گی جس کا فیصلہ عدالت کا سنگل پینچ کرے گا جس میں پٹیشن کا جائزہ لیا جائیگا۔
یاد رہے کہ اپریل میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے اپنے ہی ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں منظور کی تھیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سمیت تمام فورمز پر اس سلسلے میں جاری قانونی کارروائی کو کالعدم قرار دیا۔
گذشتہ سال جون میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں عدالت نے ایف بی آر کو ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جائیداد اور ٹیکس کے معاملات دیکھنے کے بارے میں حکم دیا تھا اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسی کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے بھی اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں دائر کی تھیں۔
صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں دیے جانے والے حکم کے خلاف دائر کی گئیں نظرثانی کی اپیلیں چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے منظور کی گئیں۔معاملے کی سماعت کرنے والے 10 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایف بی آر کی مرتب کردہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی عدالتی فورم پر استعمال نہیں ہو سکتی۔جون 2020 کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کی اکثریت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تھا جبکہ اس میں سے سات ججوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور ان کے بچوں کا معاملہ ایف بی آر میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔