’جانِ پُر سوز‘اور محسن علی آرزوؔ: ایک مختصر تعارف           

03:05 PM, 26 May, 2021

افضل رضوی
ڈاکٹر محمد محسن علی پیشے کے لحاظ انسانی جسم کے نبض شناس ہیں لیکن ان کے نوکِ قلم سے نکلنے والی آرزؤوں نے انہیں آرزوؔ بنادیا ہے۔ ڈاکٹر محسن ایک نفیس، نرم خو اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔ان کی گففتگو سے علم شناسی ٹپکتی ہے لیکن ان کا اٹھنا بیٹھنا ان کی منکسر المزاجی کا آئینہ دار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کی شخصیت کو جانچنا ہو تو اس شخص سے گفتگو کرکے دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ اس کی استطاعتِ شخصی کتنی ہے اور اس کا ظرف کتنا ہے۔ پس جس شخص میں جتنی انکساری اور ملنساری ہو، اس کا ظرف بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے اور یہ زندگی خالقِ کائنات کا ایک ایسا انمول تحفہ جو بس ایک بار ہی عطا ہوتا ہے اور جو انسان اس عطائے واحدہٗ لاشریک کا صحیح ادراک کرتے ہیں وہ زمانوں تک جیتے ہیں کیونکہ وہ کچھ ایسا کر جاتے ہیں کہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو یہ جان جاتے ہیں کہ زندگی کسی جھیل کا ٹھہراہوا یخ بستہ پانی نہیں بلکہ وہ اس کی خاموشی کے اندر چھپے ہوئے طوفان کا اپنی باطنی آنکھ سے مشاہدہ کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹرمحمد محسن علی آرزوؔ 18جنوری1979میں شہرِ اقبالؒ(سیالکوٹ) میں پیدا ہو ئے۔ کم سنی ہی میں والدین کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے کیونکہ ان کے والد پاکستان ائیر فورس میں تھے اور یوں ان کی ابتدائی تعلیم کراچی ہی میں ہوئی۔ ایف۔جی پبلک اسکول سے1996 ء میں میٹرک کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد1998 ء میں ڈی۔جے۔کالج میں داخل ہو گئے اور پھریہاں سے ایف۔ایس سی کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کرنے کے بعد ڈ۱ؤ میڈیکل کالج کراچی سے2003ء میں ایم۔ بی۔ بی۔ایس کی تعلیم مکمل کی۔دورانِ تعلیم میڈیکل کالج کی ادبی تنظیم بزمِ ادب سے وابستہ رہے، کالج میں مشاعروں کے انعقاد میں پیش پیش رہتے تھے.اردو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ نثر میں سنجیدہ تحریر یں بھی ہیں اور طنز و مزاح بھی۔شاعری گویا ان کے رگ و پے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بقول  شاعری کا سلسلہ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بھی گاہے گاہے چلتا رہا۔1998 ء میں نوائے وقت کی ذیلی ادبی تنظیم حلقہ دانش سے بھی وابستہ رہے۔نواے وقت میں پہلی مرتبہ ان کا کلام شائع ہوا، جس کا ایک شعر یہ تھا:

چشم پر نم سے آ ب کے رشتے

جیسے میرے اور آپ کے رشتے

محمدمحسن علی آرزوؔکے بقول انہوں نے پہلا شعر بارہ تیرہ سال کی عمر میں تب کہا تھا جب وہ جما عت ہفتم کے طالب علم تھے۔

خود ہی پتھر مارتا ہوں اپنے عکس کو

شایئد کوئی مجھے مظلوم تو کہے

میڈیکل کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈاکٹر محسن علی نے کچھ عرصہ پاکستان میں طبی خدمات سر انجام دیں اور پھر  2007ء میں آسٹریلیا میں سکونت اختیار کر لی۔

شاعری کیا ہے؟ شعر کسے کہتے ہیں؟ایک شاعر شعری کیفیت سے کیسے گزرتا ہے؟ خیالات و جذبات کو قرطاسِ ابیض پر اتارنے کے لیے کن حالات سے دو چار ہوتا ہے اور کیا شعر صرف الفاظ کی ترکیب و ترتیب کا نام ہے؟ ہرگز نہیں۔ شعری شعور کے پس منظر میں جذبات، خیالات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے جو عمدہ شاعری تخلیق کرنے کا موجب بنتا ہے۔

محسن علی کے شعری مجموعے ”جانِ پُرسوز‘‘کا مسودہ مجھے موصول ہوا تو جانا کہ ان کے اندر تو واقع میں شاعرانہ اوصاف موجود ہیں۔انہوں نے اپنے اس شعری مجموعے میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ نثرِ لطیف کے خوب صورت مرقعے بھی شامل کیے ہیں۔اگرچہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے؛لیکن اس کے باوجود وہ ایک منجھے ہوئے شاعر کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کے اشعار میں لفظوں کا بے محابا استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مستقبل میں ایک معتبر شاعر کے طور پر جانے جائیں گے۔ان کی شاعرانہ شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نہ تو صرف روایت تک محدود رکھاہے اور نہ ہی جدیدیت کااسیر کیا ہے بلکہ انہوں نے اردو کی شعری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے جدید طرز اظہار کو فنی سلیقہ مندی کے ساتھ اپنایا ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان کے شاعرانہ لب و لہجے میں روایت کی خوشبواور جدت و ندرت کی تازگی ایک ساتھ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

محسن علی کی غزلوں اور نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شعرائے متقدمین و متاخرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے متانت و سنجیدگی اور سادگی و شائستگی کو اپنایا ہے نیزجدیدیت سے بھی بھرپوراستفادہ کیا ہے جس سے ان کے طرز اظہار میں جدت و ندرت بھی آگئی ہے اور شعری اظہارحسین و دلکش اور موثر بھی ہو گیا ہے۔

ایک اور اہم بات جس کا تذکرہ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اردو شاعری کی روایت رہی ہے کہ اکثرشعراء اپنے مجموعہئ کلام کاآغاز حمد باری تعالیٰ سے کرتے ہیں اور پھر اللہ کے رسولﷺ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔چنانچہ محسن علی نے بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ”کچھ اپنے قلم سے اللہ کے حضور“کے عنوان سے کچھ حمدیہ اشعار پیش کیے ہیں۔

اپنے  احساس  ندامت  کو  بنا  کر آنسو

اپنی پلکوں کی منڈیروں پہ سجا دیتا ہوں

اس قدر پیار ہے دنیا کی اداؤں سے مجھے

روز محشر کے تقاضوں کو بھلا دیتاں ہوں

گو خطا کار ہوں بدکار ہوں، باغی تو نہی

کر کے توبہ تیری رحمت کو صدا دیتا ہوں

اپنی الفت سے میرے دل میں اجالا کر دے

تیرا بندہ  ہوں تیرے  در پہ  ندا دیتا  ہوں

حمدیہ اشعار کے بعد حسبِ روایت نعتیہ اشعار بعنوان”نعت شریف - بحضور سرور کو نین ﷺ“ بھی”جانِ پُرسوز‘‘کوجان بخشتے ہیں۔ دیکھیے کس نیاز مندی اور محبت وعقیدت سے سرکارِ مدینہ سرور سینہ ﷺ کے حضور نذرانہ ئ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

سراپا رحمت باری وجود ذات عالی ہے

شافع روزِ محشر،  شاد تیرا ہر سوالی ہے

مجسم نور نے تخلیق پائی نور ِیزداں سے

اسی اک نور سے روشن جہان کن فکانی ہے

عطا کر روح کو  عشقِ محمد ﷺ سے   توانائی

میرے مالک تیرے محبوب کی امت سوالی ہے      

محسن علی کے شعری مجموعہ ”جانِ پُرسوز‘‘کی نظموں پر نظر ڈالی جائے تو ان میں کئی نظموں کا مضمون اپنے اندر جوش و جذبہ سے بھرپور ہے۔اس سلسلے میں مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات اور کشمیریوں کی حالتِ زار کے تناظر میں لکھی گئی ان کی نظم ”اے وادیئ کشمیر“مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ان کی یہ نظم مفتی تقی عثمانی صاحب کی اسی عنوان پر لکھی گئی ولولہ انگیز نظم”اے وادیئ کشمیر! اے وادیئ کشمیر!“ کی یاد تازہ کردیتی ہے جو انہوں نے جون 1965ء میں لکھی تھی اور ہیئت کے اعتبار سے مخمس تھی؛ جب کہ محسن کی نظم مسدس میں کہی گئی ہے۔ دونوں نظموں کا انداز اور مضمون نہایت ولولہ انگیز ہے۔

اے وادی ئکشمیر

تاریخ کے پردے پہ لرزتی ہوئی تصویر

احساس کے چہرے پہ سلگتی ہوئی تحریر

ظلمت کے اندھیروں میں ابھرتی ہوئی تحریر

آفاق کے قدموں میں دہکتی ہوئی زنجیر

آزادیئ انسان کے ہر لمس کی تحقیر

اے وادیئ کشمیر! اے وادیئ کشمیر!

 

اک سوگ میں ڈوبی تیری گلیوں کی فضا

بارود کی بو ہے، کہیں آہ بکا ہے!!

ہر سمت شہیدوں کے جنازے کی صدا ہے

تیری نہیں، یہ ملت مسلم کی فضا ہے

ابھرے گی اسی راکھ سے آزادی کی تصویر

اے وادیئ کشمیر! اے وادیئ کشمیر!

2020ء کا سورج اپنے ساتھ ایک عالمی وباء ”کورونا وائرس“ (COVID 19)لے کر طلوع ہوا اور اس نے اردو کے نثری و شعری ادب کو بھی بے حد متاثر کیاہے۔چنانچہ نثر کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی ”عہدکورونا“ کی اصطلاح معروف ہوئی ہے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں ساری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ اردو زبان کے شعراء کی ایک کثیر تعداد نے اس اصطلاح کو اپنے اشعار کی زینت بنایا ہے۔ محسن علی نے بھی اس حوالے سے ایک نظم”سنبھل بھی جاؤ“کے عنوان سے کہی ہے،جس میں اس وبائی مرض کے تکلیف دہ دورمیں پاکستان کی مذہبی اور سیاسی صورتِ حال کو موضوع بنایا ہے۔ اس نظم سے چند اشعار یہاں درج کیے جارہے ہیں۔

جہاں میں آئی ہوئی مصیبت پکارتی ہے سنبھل بھی جاؤ

اگربدلنی ہے اپنی حالت تو میرے لوگو بدل بھی جاؤ

 

کوئی ہے سنی کوئی شیعہ ہے جہاں میں ایسے کو ئی جیا ہے

یہ فرقہ بندی یہ درجہ بندی ان آفتوں سے نکل بھی جاؤ

 

یہ نفرتوں کو فروغ دینا منافقوں کی نشانیاں ہیں

عذاب ربی پکارتا ہے برے عمل سے تو ٹل بھی جاؤ

یہ قلب مومن پکارتا ہے خداکی رحمت یہیں کہیں ہے

کٹے گی مشکل کی یہ گھڑی بھی، یقین رکھو سنبھل بھی جاؤ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزیدخبریں