مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ اور دنیا بھر سے ملنے والے اعزازات کی ایک اچھی خاصی طویل فہرست ہیں۔ روس کے ایک صحافی نے مارگریٹ کو ''آئرن لیڈی'' کا خطاب بھی دیا جو دنیا بھر میں اُس وقت بہت مقبول ہوا تھا، مگر اس قدوقامت اور شہرت کے باوجود برطانیہ کے کسی گلی کوچے سے ایک نعرہ نکلا اور مارگریٹ کے مضبوط ترین سیاسی وجود کو تنکوں کی طرح بہا لے گیا۔
سیاست کی دنیا میں اِن سیاسی نعروں کی بہت اہمیت رہی ہے۔ کوئی سیاسی نعرہ کسی سیاستدان کو اقتدار کے اعلیٰ منصب پر بیٹھا بھی سکتا ہے اور اُسے منصب سے گرا بھی سکتا ہے۔
2013ء اور 2018ء کا الیکشن عمران خان نے ”نیا پاکستان“ کے نعرے کے ساتھ لڑا تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کو صوبہ خیبرپختونخوا اور 2018ء کے الیکشن کے بعد ماسوائے صوبہ سندھ، مرکز اور تین صوبوں میں حکومت سازی کا موقع فراہم کیا گیا۔
اب جیسا کہ ماحول دوبارہ الیکشن کی جانب گامزن ہے تو پی ٹی آئی نے نیا پاکستان کے نعرے کے بجائے جو کہ ہمیشہ سے اُن کا اٹل موقف رہا ہے اس بار امپورٹڈ حکومت نامنظور اور غلامی نامنظور کے نعروں کے ساتھ انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
عین ممکن ہے کہ جب انتخابات کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان ہو جائے تو عمران خان یا اُن کی پارٹی کسی نئے موقف یا نعرے کے ساتھ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کریں۔ تاہم فی الحال وہ امپورٹڈ حکومت نامنظور اور غلامی نامنظور کے ساتھ میدان میں موجود ہیں اور ماحول گرمائے ہوئے ہیں۔
”نہروں کو عبور کرتے وقت گھوڑوں کو تبدیل نہ کریں“
1860ء میں امریکی صدر اور سیاستدان ابراہم لنکن نے اسی نعرے کے ساتھ الیکشن لڑا اور جیتا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب امریکہ انتشار کے دہانے پر تھا۔ امریکی صدر ابراہم لنکن نے اس وقت موقف اختیار کیا کہ امریکی قوم خود کو مضبوط بنائے، خود کو ووٹ دے اور خود پر بھروسہ رکھے۔ ابراہم لنکن کی یہ خود اعتمادی اور واضح موقف امریکی قوم کو اچھا لگا اور انہوں نے ”نہروں کو عبور کرتے وقت گھوڑوں کو تبدیل نہ کریں“ کے نعرے پر ووٹ دیا اور ابراہم لنکن کو صدارت کے اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھا دیا۔
ابراہم لنکن اور عمران خان کی زندگی، شخصیت اور نظریات میں فرق ہے۔ دونوں کی ناکامیوں اور کامیابیوں میں فرق ہے۔ دونوں نے انتخابات کیلئے جو نعرے بلند کیئے، اُن کے پس منظر مختلف ہیں۔ ابراہم لنکن کو جب حکومت ملی تھی تو بندہ خدا نے ایک لاجواب محنتی دماغوں پر مشتمل کابینہ تشکیل دی۔ جس میں عمران خان قطعی طور پر ناکام رہے۔ ابراہم لنکن کا اپنے مخالفین کے بارے میں قطعی مختلف نظریہ تھا۔ ابراہم لنکن اپنے دشمنوں کو اپنا دوست بنا لیتے تھے تاکہ اپنی توجہ اور محنت کو امریکہ کی معاشی ترقی پر مرکوز کر سکیں۔ ایک بار لنکن نے کہا تھا کہ اُس کی ناکامیوں نے اُسے کامیاب بنایا ہے۔ ابراہم لنکن کاروبار میں ناکام رہا، اُس نے نوکری کھوئی، نروس بریک ڈاؤن کا شکار رہا، وہ سپیکر کا الیکشن ہارا، وہ لینڈ آفیسر بھی بن نہیں پایا، سینیٹ کے الیکشن میں بھی اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اُس کے نائب صدر کیلئے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے گئے۔ غرض کہ ابراہم لنکن نے امریکی صدر کا الیکشن جیتنے سے قبل کئی ناکامیوں کا منہ دیکھا۔ ان ناکامیوں نے ابراہم لنکن کو بہت کچھ سکھایا اور سب سے بڑھ کر سیاست سکھائی۔
2008ء میں جب امریکی تاریخ میں پہلی بار سیاہ فام بارک اوبامہ نے امریکہ کی صدارت کا انتخاب جیتا تو کسی صحافی نے اُن سے پوچھا کہ آپ وائٹ ہاؤس میں بائبل کے علاوہ کون سی کتاب اپنے ساتھ لے کر جائیں گے تو اوبامہ نے جواب دیا۔ Team of Rivals. The political Genius of Abraham Lincoin۔ یہ کتاب امریکی صدر ابراہم لنکن کی سیاسی سمجھ بوجھ اور کابینہ کے اُن ممبران کے ورکنگ سٹائل پر لکھی گئی تھی، جو ابراہم لنکن کے انتخابات جیتنے سے قبل تک اُن کے حریف تھے۔ مگر یہ وہ زیرک، ہوشیار، دانش مند اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال افراد تھے کہ جنہیں ابراہم لنکن نے صدر بننے کے بعد فوراً اپنی کابینہ میں شامل کر لیا تھا۔
یہ ابراہم لنکن کی کمال کی دانش مندی تھی، وہ ذہین ترین دماغ جو اگر اُس کے حریف رہتے تو غالباً امریکی صدر کے کام کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے رہتے۔ مگر ابراہم لنکن نے اُنہیں اپنے ساتھ ملا کر اپنی حکومت اور امریکہ کی معاشی ترقی کیلئے استعمال کیا۔ یقیناً ابراہم لنکن کی یہ وہی سیاسی سوچ اور فلاسفی تھی جس نے اُنہیں یہ نعرہ بلند کرنے پر آمادہ کیا کہ نہروں کو عبور کرتے ہوئے گھوڑوں کو تبدیل نہیں کرتے۔
عمران خان میں ایسی سیاسی سوجھ بوجھ اور دانش مندی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی۔ ذرا سوچیں اگر عمران خان 2018ء کا الیکشن جیتنے کے بعد اپنی قوت، طاقت اور صلاحیت کو چور چور کی رٹ لگانے کی بجائے اپنی مخالف اور حریف پارٹی کے ذہین ترین دماغوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے تو ناصرف ان سیاسی جماعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا بلکہ وہ خود اپنی صلاحیتوں اور قیمتی ترین وقت کو پاکستان معیشت کی ترقی پر صرف کرتے، مگر افسوس کہ عمران خان نے جو ٹیم بنائی وہ اتنی نکمی اور نالائق تھی کہ وہ اپنے دور حکومت میں کابینہ میں تبدیلیاں لانے پر ہی مجبور رہے۔
صد افسوس کہ آج عمران خان کے پاس کوئی سیاسی نعرہ نہیں اور اُن کے ذہنی طور پر قلاش ہونے سے نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ امپورٹڈ حکومت نامنظور اور غلامی نامنظور کے بے جان اور بے وقت نعرے بیچنے پر مجبور ہیں۔
بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان ایک نعرہ تھا۔ ایک فلسفہ تھا۔ نیا پاکستان بھی ایک جاندار نعرہ اور فلسفہ تھا، مگر لگتا یہ ہے کہ اس بار عمران خان کے پاس کوئی سیاسی منشور یا کوئی سیاسی فلسفہ نہیں ہے۔ اسی لئے وہ کروڑوں نوکریوں، لاکھوں گھروں، معیشت کی بحالی اور آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کی جانب نہیں آ رہے۔ خان صاحب کو ابراہم لنکن اور بھٹو سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور مارگریٹ تھیچر کے انجام سے ڈرنے کی۔