مالیس قبیلے کے لوگ آندھرا پردیش اور اڈیشہ کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ ان میں یہ روایت ہے کہ لڑکیوں کی تین شادیاں کی جاتی ہیں۔ یہ شادی لڑکی کی مختلف عمروں میں ہوتی ہے۔
تفصیل کے مطابق بھارتی ریاست آندھرا پردیش اور اڈیشہ سے متصل ایک گائوں میں ایک انتہائی دلچسپ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ یہاں کی ہر لڑکی کی شادی تین بار ہوتی ہے۔ پہلی شادی پانچ سال کی عمر سے پہلے، دوسری لڑکپن میں جبکہ تیسری شادی بلوغت کی عمر میں پہنچنے کے بعد کی جاتی ہے۔
بی بی سی ہندی کے مطابق پہلی دونوں شادیوں میں دولہا نہیں ہوتا۔ پھر بھی مالیس قبیلے کے لوگ اسے شادی ہی مانتے ہیں۔ تاہم تیسری بار ہونے والی شادی میں دولہا موجود ہوتا ہے۔ اور اس شادی کے بعد دلہن اپنے سسرال چلی جاتی ہے۔
ڈوڈی پٹو نام کے اس گائوں میں پانچ سال سے کم عمر کی پچاس لڑکیوں کی شادی کی رسم ایک ساتھ اد اکی گئی۔ ایسی 20 شادیاں دیکھ چکی اس گائوں کی رہائشی پاروتی بتاتی ہیں کہ ایسے شادیوں میں پورا گائوں سج جاتا ہے اور یہاں ایک میلے کا سماع ہوتا ہے۔ دعوتیں دی جائیں گی، رشتے دار آئیں گے اور خوب ہلا گلہ کیا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ایسی ہر ایک شادی کا خرچہ تقریباً ایک لاکھ روپے آتا ہے۔ جس خاندان میں لڑکی پیدا ہوتی ہے، اسے شادی کی یہ رسم ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ جو یہ رسم ادا کرنے کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے، ان کی مدد رشتے دار اور شادی میں شریک ہونے والے مہمان کرتے ہیں۔
شادی میں شرکت کرنے والے مہمان لڑکی کے والدین کو شگن کے طور پر 100 روپے کا لفافہ دیتے ہیں۔ جبکہ لوگ اپنی حیثیت کے حساب سے تحفے دیتے ہیں۔ شادی کرنے والا پجاری بچی کو پہلے اپنے کندھے پر بٹھا کر گائوں کا چکر لگاتا ہے، پھر اس کا ہوون کیا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق اس کیساتھ ہی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے۔
اس قبیلے میں ایسا نہ کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسی شادیاں بغیر دولہے کے ایک رسم ورواج کے تحت کرتے ہیں۔ اس لئے اس کو کم عمری کی شادی نہیں کہا جا سکتا۔
قبیلے کے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر وہ یہ رسم ادا نہیں کریں گے تو اس سے ان کے آبا واجداد کی روحوں کو نقصان پہنچے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ہر لڑکی کی اصل شادی اس کے پسند کے لڑکے سے ہی کی جاتی ہے۔