ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ہجوم کو بنانے سے لے کر بگاڑنے تک کی ساری مشق کی اصل قیمت ملک اور اس کے مفلوک الحال عوام ہی کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ جبکہ اسے بنانے اور بگاڑنے والوں نے نام بھی کمایا اور دام بھی۔ طاقتور دست شفقت اٹھنے کے بعد پی ٹی آئی پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے نقش قدم پر چل کر اپنے وجود کو برقرار رکھ پائے گی یا ق لیگ کی طرح سیاسی بیوگی و یتیمی میں ساری زندگی کسی دست شفقت کی تلاش و انتظار ہی میں بھٹکتی رہے گی، یہ نیتجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔
15 مئی کی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد کے حالات و واقعات مؤخرالذکر صورت حال کی غمازی کر رہے ہیں۔ اس دن کے فیصلوں کی بنیاد پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور خصوصاً عمران خان کے حوالے سے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ذہن میں اسی روز اصل تبدیلی شروع ہوئی۔ صرف یاد دہانی کی خاطر عرض مکرر ہے کہ عدم اعتماد سے پہلے مارچ اور بعد میں 29 نومبر 2022 تک عمران خان کے جارہانہ انداز، غیر متزلزل اعتماد، میڈیا کے پی ٹی آئی کے حوالے سے وہی یک طرفہ و جانبدارانہ انداز جو 2014 سے بلا خوف و تردد جاری تھا اور ریاستی اداروں خصوصاً عدلیہ کے مشفقانہ سلوک کو مد نظر رکھتے ہوئے راقم نے تسلسل کے ساتھ انہی صفحات میں لکھا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور خصوصاً فوج میں کوئی سیاسی نیوٹریلٹی نہیں آئی بلکہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے سکرپٹ میں ضروری ردوبدل کیا جا رہا ہے۔
اب حالات و واقعات اور جنرل باجوہ کے اپنے اور ان سے متعلق دوسروں کے انکشافات اس حقیقت پر دلالت کر رہے ہیں کہ 27 نومبر، مطلب بطور آرمی چیف آخری دن تک، جنرل باجوہ اس سکرپٹ پر کام کر رہا تھا۔ یادش بخیر، مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر بے محکمہ جناب جاوید لطیف صاحب نے اس امر کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ ہمیں تو اصل میں حکومت 29 نومبر 2022 کو ملی۔ اگر دیکھا جائے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے سکرپٹ کے پہلے حصے میں کامیابی سے رنگ بھرا تھا۔ عدم اعتماد سے پہلے پانامہ سے لے کر نواز شریف اور مریم نواز شریف کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے، جولائی 2018 کے انتخابات میں ہر قسم کی قبل از انتخابات دھاندلی کرنے، ہر پولنگ بوتھ کے اندر فوج کا مسلح سپاہی تعینات کرنے اور بندوق کی نوک پر دیگر جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر گنتی کرنے اور آر ٹی ایس بٹھانے کا سہرا جنرل باجوہ اور فیض حمید کے سر جاتا ہے۔
رہی سہی کسر عمران خان کے پونے چار سالہ دور حکمرانی نے نکال دی۔ اس دور حکومت کو یا تو دو نسلی یعنی ہائبرڈ نظام حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا تھا یا اسے غیر اعلانیہ مارشل لاء پکارا جاتا تھا۔ خفیہ ایجنسیاں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور چیرا دستیوں کے ناقدین سیاسی کارکنان، صحافیوں اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے کارکنان کو بلاخوف اکثر دن دیہاڑے اغوا کرنے، جبراً لاپتہ کرنے، خوف زدہ و زدوکوب کرنے اور ملازمتوں سے فارغ کر کے ان کا معاشی قتل کرنے میں مصرف تھیں۔ اس سارے عمل میں پی ٹی آئی کی حکومت نے یا تو نیم رضامندی والی خاموشی اختیار کیے رکھی یا پھر ان ہتھکنڈوں کے حق میں مختلف تاویلیں و جواز پیش کر کے ان کا دفاع کرنے میں کمر بستہ رہی۔
مثلاً خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی پہلی صوبائی حکومت (2013 سے 2018) کے دور میں آئے روز تاک شدہ یعنی ٹارگیٹڈ قتل ہوتے تھے۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 129 قتل اس دور میں ہوئے تھے جن کی وزیر اعلیٰ سے لے کر کسی وزیر نے کبھی مذمت تک نہیں کی بلکہ الٹا ان کارروائیوں سے متعلق سوال کرنے والوں کو ڈانٹ پلا دیتے تھے۔ اپریل 2022 تک یہی پالیسی جاری رہی۔
جب 2019 میں علی وزیر اور محسن داوڑ کی قیادت میں پُرامن جلوس پر خڑکمر چیک پوسٹ سے فائرنگ ہوئی اور اس کے نتیجے میں کئی کارکنان ہلاک و زخمی ہوئے تو الٹا دونوں ممبران پارلیمنٹ علی وزیر اور محسن داوڑ پر ہی دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیے گئے جن کا دفاع پی ٹی آئی کے مراد سعید اور دیگر وفاقی وزرا نے پارلیمنٹ کے فلور پر کیا۔ دوسری جانب عمران خان کا بطور وزیر اعظم ایک ہی مشغلہ یا مقصد تھا اور وہ یہ کہ اپنے ہر سیاسی مخالف اور اختلافی آواز کو کچلنا اور شاید ادلے بدلے کے اصولوں کے تحت جنرل باجوہ اور فیض حمید اس میں پوری طرح ان کے ممد و معاون تھے۔
حاصل بیان یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت فوج کیلئے گلے کی ہڈی بن گئی تھی۔ ایک طرف دن بدن معاشی گرداب گہرا ہوتا جا رہا تھا تو دوسری طرف سیاسی استحکام ناپید۔ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن اور اچھوت سمجھ رہا تھا جو کسی بھی رحم یا وضعداری کے مستحق نہیں تھے۔ عوام کی نظر میں اس سب کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوج تھی اور یوں عمران کے ساتھ ان کی اپنی مقبولیت بھی زمیں بوس ہو رہی تھی۔ 10 اپریل کے عدم اعتماد کے بعد جنرل باجوہ نے غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو اور اسٹیبلشمنٹ کو بری الذمہ قرار دلوانے کی کوشش کی اور عمران خان کو کھلا اور محفوظ میدان دے کر اپنے آپ کو سیاسی شہید ثابت کرنے لگے۔ یوں عمران خان کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔
لیکن بادی النظر میں دیکھا جائے تو پی ڈی ایم خصوصاً نواز شریف کے دباؤ کے تحت سنیارٹی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کے بطور آرمی چیف تقرر اور عمران خان کی ناعاقبت اندیشی اور ہٹ دھرمی نے سکرپٹ کو لیرو لیر کر دیا جس کا نتیجہ 9 مئی کے واقعات کی صورت میں برآمد ہوا۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ جنرل عاصم منیر کے تقرر کے بعد بھی فوج و اعلیٰ عدلیہ دونوں میں عمران خان کے سرپرستوں اور پشت پناہی کرنے والوں کا ایک مضبوط دھڑا موجود تھا۔ ان کی حمایت و سرپرستی کے بغیر عمران خان اپنے بل بوتے پر یہ سب کچھ خصوصاً 9 مئی جیسے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے علاوہ فوجیوں اور ججوں کے خاندان مثلاً خدیجہ شاہ، ساسو ماں وغیرہ جیسے کردار اور فواد چودھری، بابر اعوان، شیخ رشید، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی وغیرہ جیسے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کا انقلابی ہونے سے کیا لینا دینا تھا؟ اگر ان کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور حصہ ان کی پشت پر نہ ہوتا تو یہ 10 اپریل 2022 کو ہی یہ پریس کانفرنسیں کر دیتے جو آج کر رہے ہیں۔ یہ مہرے 15 مئی تک اسی مغالطے میں پڑے رہے کہ اصل اسٹیبلشمنٹ انہی کے ساتھ ہے۔
اب باخبر صحافی اس جانب اشارے کر رہے ہیں کہ 9 مئی کی ہلکی پھلکی بغاوت اصل میں حکومت کے خلاف نہیں بلکہ جنرل عاصم منیر کے خلاف تھی۔ جنرل باجوہ کے وقت تو جسٹس عمر عطاء بندیال دھڑے نے آئین کی تشریح کے نام پر دربار لگاتے ہوئے پنجاب حکومت دوبارہ پی ٹی آئی کے حوالے کر دی تھی لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کسی اور مقدمے کی سماعت کے دوران وہاں دوبارہ انتخابات کرانے کے سوال پر سوموٹو لینا اور غیر جانبداری کا نقاب اتارنا ان کیلئے مہنگا ثابت ہوا۔ اس عمل نے نا صرف سپریم کورٹ میں تقسیم واضح کر دی بلکہ اسے مزید وسیع بھی کیا۔ جنرل باجوہ جیسی سپورٹ نہ ملنے اور حکومت و پارلیمنٹ کے جارحانہ انداز نے بندیالی دھڑے کی دست اندازی کو پسپائی پر مجبور کیا۔ شاید دیگر عوامل کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی جس نے عمران اور ان کے سرپرستوں کو 9 مئی جیسے اقدام پر مجبور کیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 9 مئی کا سارا نزلہ محض چند سویلین مہروں ہی پر گرے گا؟ شاہ محمود، فواد چودھری وغیرہ کو محفوظ راستہ دے کر کہیں اور کھپایا جائے گا جس کیلئے پی پی پی نے ابھی سے بانہیں پھیلا لی ہیں۔ اس سازش کو ناکام بنانے کے بعد جمہوریت، عوامی و آئینی بالادستی اور حکومت کہاں کھڑے ہیں؟ جنرل احمد شجاع پاشا، ظہیر الاسلام، اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف، قمر باجوہ، فیض حمید، جج ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، عمر عطاء بندیال اور ان کے دیگر ہم نواؤں بشمول پی ٹی آئی کے کرتا دھرتاؤں کو چھوڑ کر صرف پی ٹی آئی کے چند فٹ سولجرز پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانا بذات خود سیاسی قوتوں، جمہوریت اور عوامی بالادستی کی بدترین شکست ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسٹیبیشمنٹ نے ایک بار پھر اپنا کنٹرول مستحکم کر کے مقصد حاصل کر لیا۔ اپنوں کو بعد میں معاف کر کے گلے سے لگا لیں گے۔ تکریمِ شہداء پروگرام میں جنرل باجوہ کی موجودگی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے جبکہ ڈنڈا اس کے گمراہ کئے ہوئے سویلینز کے سر پر پڑے گا جیسے فضل اللہ کے حواریوں کے ساتھ ہوا تھا۔