میڈیا میں خبریں زیر گردش تھیں کہ سابق صدر پاکستان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے کیس کی پیروی سے انکار کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ تاہم، اب طارق کھوکھر نےمستعفی ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ اُن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے سابق صدر پرویز مشرف ٹرائل کیس سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاق کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے 28 نومبر کو محفوظ فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ عدالتی فیصلے کو روکنے کے لئے پرویز مشرف اور وزارت داخلہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، آج عدالت نے درخواست کو سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے۔
درخواست میں وزارت داخلہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن ٹیم کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو اس نے بغیر اختیار کے مقدمہ کی پیروی کی۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن ٹیم نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے جس کا اسے اختیار نہ تھا، خصوصی عدالت نے نئی پراسیکیوشن ٹیم نوٹیفائی کرنے کا موقع دیے بغیر ہی فیصلہ محفوظ کرلیا اور اسے سنانے کیلئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کر دی۔
درخواست میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو پراسیکیوشن ٹیم تبدیل کرنے کا اختیار ہے، خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا 19 نومبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے، عبوری ریلیف کے طور پر خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔
دوسری جانب بیرون ملک موجود سابق صدر پرویزمشرف نے بھی سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی۔ پرویز مشرف کی جانب سے ان کے وکیل سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ خصوصی عدالت کو 28 نومبر کو فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پرویزمشرف سے قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے، کیس میں پرویز مشرف کا دفاع کرنے کے حق سے محروم کیا گیا، خصوصی عدالت کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 4 اور 10 اے کی خلاف ورزی ہے لہٰذا 19 نومبر 2019 کا خصوصی عدالت کا حکم نامہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو فیصلہ دینے سے روکا جائے۔
سنگین غداری کیس کا پسِ منظر
سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔ مقدمے میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے۔
عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔
بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔