پاکستان بار کونسل نے سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست کی بھی مذمت کی۔
پریس ریلیز کے مطابق یہ بات سمجھ یہ بالاتر ہے کہ حکومت ایک طرف جمہوری عمل کے تسلسل کی دعوے دار ہے جبکہ ساتھ ہی وہ ایک آمر کو بچانے کی کوشش بھی کر رہی ہے، مشرف ایک قومی مجرم ہیں جس نے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف وزری کی، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، حکومت خصوصی عدالت کی کارروائی میں مداخلت کی کسی بھی کوشش سے اجتناب کرے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں وزارت داخلہ نے مؤقف اپنایا کہ سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن ٹیم کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو اس نے بغیر اختیار کے مقدمہ کی پیروی کی۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن ٹیم نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے جس کا اسے اختیار نہ تھا، خصوصی عدالت نے نئی پراسیکیوشن ٹیم نوٹیفائی کرنے کا موقع دیے بغیر ہی فیصلہ محفوظ کرلیا اور اسے سنانے کیلئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کردی۔
درخواست میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ وفاقی حکومت کو پراسیکیوشن ٹیم تبدیل کرنے کا اختیار ہے، خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا 19 نومبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے، عبوری ریلیف کے طور پرخصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔
دوسری جانب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے فوج کے کمانڈر انچیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا جاری شدہ نوٹیفیکشن معطل کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید عدالتی سماعت بدھ ستائیس نومبر کو ہو گی۔
سینئر کورٹ رپورٹر عبدالقیوم صدیقی نے نیادور سے گفتگو میں کہا کہ آج کی سماعت خاصی اہم تھی، سماعت کے دوران کئی اہم باتیں ہوئیں، ایک موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ آئین میں تو دوبارہ تعیناتی کا تصور ہی نہیں عدالت کے مطابق فوجی قوانین کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل نے جب عدالت کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری ریجنل سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے، تو عدالت عظمی نے کہا کہ اس میں سیکیورٹی صورتحال کی اصطلاح جو استعمال کی گئی وہ مبہم ہے، مسلح افواج کسی بھی خطرے کی صورت میں باڈی کے طور پر کام کرتی ہیں، کوئی اکیلا کام نہیں کرتا، اگر یہ روایت ڈالی گئی تو پھر مسلح افواج کا ہر شخص اہم ہے اس کی مدت میں توسیع کرنا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے اس معاملے پر کوئی رائے نہیں دی اور 25 ارکان میں سے 11 اس کے حق میں تھے جبکہ 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے نیادور سے گفتگو میں کہا کہ آرمی چیف نے بہرحال مدت ملازمت پوری کر لی ہے، توسیع دینا یا نہ دینا حکومت کا معاملہ ہے تو تیسری دفعہ بھی ایکسٹینشن دینے میں کیا حرج ہے، اگر حالات سنگین بھی ہیں تو کیا کوئی اور اس قابل نہیں ہے کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف بن سکے، سسٹم کی بقاء کے لیے ایکٹیشن کی بجائے روٹین میں معاملات چلنے چاہیے ایک آرمی کو اللہ نے عزت دی تو اسے چاہیے کہ مدت ملازمت پوری کرے اور ریٹائرمنٹ انجوائے کرے۔
سینئر صحافی ضیا الدین نے کہا کہ یہ تو حکومت کی نالائقی ہے، حکومت نےمعاملے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، ایکسٹینشن کا فیصلہ ہونا ہے تو کل ہی ہو گا، یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے گہرے اور دیرپا اثرات ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون نے بھی معاملے میں غلطی اور لاپرواہی کا ارتکاب کیا۔