عورت پر تشدد کی ابتدا اپنی ماں سے ہوتی ہے یہ تشدد جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر دیاجاتا ہے جب بھائی کی نسبت کم اہمیت دی جاتی ہے۔
عورت مظلوم رہی ہے زندہ درگور کیا جانا عام سا واقعہ تصور کیا جاتا ہے، عورت کو صرف بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھا جاتا تھا۔
بچپن کا واقعہ ہے کزن پیدا ہوئی، میں نے کہا آج تو مٹھائی کھائیں گے تو اماں نے کہا چپ رہو اتنے میں ایک بزرگ خاتون نے کہا لو پھر سے بیٹی پیدا ہوگئی ۔ عورت کو پیدائش کے پہلے دن سے ہی منحوس تصور کیا جاتا ہے۔
معاشرتی برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہی ہے۔ عورت کو ہمیشہ سے مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ مرد خود کو طاقتور تصور کرتا ہے، قوی جسد کی وجہ سے خود کو حاکم تصور کرتا ہے۔ بنی نوح انسان نے ترقی کے مراحل طے کئے، عورت کو مرد سے سب سے زیادہ خطرہ ہے اسی بحث پر بے شمار مکالمے ہوئے ہیں، گھریلو تشدد ہمیشہ سے خواتین پر ہوتا ہے، ہاتھ مرد کا ہوتا ہے مگر سوچ ایک خاتون کی ہی ہوتی ہے۔
اتنے واقعات ہیں دل دہل جائے کہیں لاہور میں جہیز نہ لانے پر زندہ جلا دیا جاتا ہے تو کھبی پڑھے لکھے گھروں میں ملازمہ پر تشدد کیا جاتا ہے۔ معروف گلوکار محسن حیدر پر بھی ان کی بیوی تشدد کا الزام لگا چکی ہیں۔
گھریلو تشدد کی وجوہات میں تعلیم کی کمی، حقوق سے ناواقفیت، بے جا پابندی، اسلام سے دوری ہے، شادی کے بعد عورت سب سے پہلے اولاد کی توقع آتی ہے، اگر بیٹا ہوا تو خوشیاں، بیٹی پیدا ہوئی تو طعنہ اور اولاد نہ ہوئی تو بانجھ ہونے کی سند دے دی جاتی ہے۔ دادی کو پوتے سے بہت پیار ہوتا ہے مگر پوتی سے اس شدت سے محبت نہیں ہوتی۔
اے لوگو! اپنے رب سےڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اس سے اس کی زوجہ کو پیدا کیا، اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں خواتین کو پھیلا دیا (القرآن)
دین اسلام نے تخلیق کے اعتبار سے مردوخواتین کو ایک جیسا مقام عطا فرمایا اور انسان کو اس حوالہ سے روشناس کرایا ہے کہ دونوں ہی اللہ کی تخلیق ہیں۔
ہر معاشرہ اپنے اندر افراد کے متنوع رویوں کا حامل ہوتا ہے جہاں مختلف ثقافت زبان نسل سے تعلق رکھنے کے ساتھ عقائد ونظریات میں بھی اختلافات موجود ہوتے ہیں ۔پاکستان میں مغربی و ہندی تہذیبوں کے اثرات کے علاوہ اسلام سے بھی وابستگی ہے۔
مسائل کا انبار پسند کی شادی، جہیز کے مسائل، مشترکہ خاندانی نظام، خاندانی انتشار، بے اولادی کے طعنے، تشدد کا رجحان اور خاوند کا بیوی سے دور رہنے سے پیدا ہوتے ہیں جو عورت کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
وقت بدلنا پڑے گا، عورت کی عورت پر حکمرانی سے لیکر مرد کی حاکمیت کے خلاف علم بلند کرنا دونوں انتہاوں سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ مرد کو بھی اپنے فرائض پورے کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کا احترام اور بنیادی حقوق کا محافظ بنے ۔ تشدد ضروری نہیں جسمانی ہو ذہنی تشدد سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں جس سے پورا خاندان گزرتا ہے ۔ عورت ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی کے روپ میں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے ۔ مذہب، معاشرہ ، ریاست کوئی بھی تشدد کا حامی نہیں ہے ۔۔