یہ بھی درست ہے کہ ان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا تاہم پاکستان کے اصلی و ڈمی حکمران خارجہ تعلقات کے روایتی اوزاروں سے اس کی مرمت کر لیتے۔ لیکن جب سے عمران حکومت نے ریاست کے انتظام کی باگ ڈور سنبھالی ہے ملک کی خارجہ پالیسی بحرانوں کا شکار ہے۔
لیکن اس کی ابتری میں ہائی لائٹ اگر کچھ رہا تو وہ سعودی عرب کے ساتھ اسکے تعلقات میں اچانک اور شدید بگاڑ۔
قوم سمیت بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ماہرین بھی اس پر چونکے۔ یہ سب کیا ہوا ہے؟ اس کے بارے میں ملک کے سینئر صحافی سلیم صافی نے حال ہی میں ایک کالم تحریر کیا ہے اور پاک سعودی تعلقات کے اچانک بگاڑ اور اس میں عمران خان کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بدقسمتی یہ ہوئی کہ گزشتہ چند برسوں میں مڈل ایسٹ کی سیاست اور معیشت میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔
ایک تو صرف تیل پر ان کی معیشت کے انحصار کا سلسلہ ختم ہونے لگا بلکہ عرب ممالک مالی مشکلات کا بھی شکار ہونے لگے۔
دوسری طرف عرب اسپرنگ کے بعد ان کو اخوان المسلمین اور داعش وغیرہ کے خطرات درپیش ہونے لگے، اسی طرح ان کے ایک اپنے عرب ملک قطر کے ساتھ تعلقات نہ صرف خراب ہوگئے بلکہ اس کے بارے میں ان کی حساسیت بہت بڑھ گئی،ایران سے ان کی مخاصمت پرانی ہے لیکن اس دوران ترکی سعودی عرب کے مقابلے میں آگیا، ان اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ اسرائیل سے اپنے تعلقات بہتر بنانے لگے۔
ایران سے ان ممالک کی مخاصمت چونکہ پرانی تھی، اِس لیے پاکستان کے تجربہ کار سابقہ حکمران ان دونوں کے مابین توازن قائم رکھے ہوئے تھے لیکن ترکی،قطر اور ملائیشیا وغیرہ کے ساتھ ان کی مخاصمت نئی تھی اور بدقسمتی سے اس دوران پاکستان میں نئے اور ناتجربہ کار حکمران سامنے آئے، اس لیے افراط و تفریط سے کام لے کر انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کو ناراض کیا۔
سعودی عرب اور یو اے ای قطر اور ترکی کے بارے میں ایران سے زیادہ حساس ہوچکے ہیں، چنانچہ خان صاحب نے یواین جاتے ہوئے پہلے طیب اردوان کے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا تھا، اس پر سعودیوں نے ناراضی ظاہر کردی تو طیب اردوان کو چھوڑکر انہوں نے سعودی عرب کا راستہ اختیار کیا۔
وہاں سے محمد بن سلمان کے جہاز میں امریکا گئے لیکن ادھر جاکر ترکی، ملائشیا اور ایران کے ساتھ نیا اتحاد بنانے کا فیصلہ کیااورایران اور امریکا کے درمیان ثالثی کرانے کی بڑ ماردی، چنانچہ سعودی عرب شدید ناراض ہوا اور ان سے جہاز بھی واپس منگوا لیا گیا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوالالمپور کانفرنس سے پہلے معاملات درست کرلیے جاتے لیکن جب انہیں پتا چلا کہ سعودی عرب شدید ردعمل دکھائے گا تو وہ محمد بن سلمان کو منانے ان کے پاس چلے گئے لیکن انہوں نے اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کی اور وہ ترکی سے معذرت کرکے واپس پاکستان لوٹ آئے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اِس وقت عملاً پاکستان میں کوئی وزیرخارجہ نہیں بلکہ خان صاحب خود وزیرخارجہ ہیں۔شاہ محمود قریشی صرف ترجمانی کرتے ہیں، وہ معاملات کوسمجھتے ہیں لیکن خان صاحب اور خان صاحب کے سرپرستوں کے خوف سے کوئی قدم نہیں اٹھاتے، رات کو خان صاحب اپنے سیکرٹری اور ایک وفاقی مشیروغیرہ کے ساتھ بیٹھ کر کوئی منصوبہ بنالیتے ہیں اور صبح وہ ہماری خارجہ پالیسی بن جاتی ہے۔
اسی طرح دن کو پنڈی سے کسی افسر کے ذہن میں کوئی خیال آجاتا ہے جو دفتر خارجہ کو بتادیا جاتا ہے اور اگلے لمحے وہ ہماری خارجہ پالیسی بن جاتی ہے۔
ان دنوں یہ خبر عام کردی گئی ہے کہ یواے ای نے پاکستان کے لیے ہر قسم کے ویزوں پر پابندی لگا دی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ویزوں کا اجرا مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا بلکہ کچھ سختی کی گئی ہے لیکن ہماری وزارتِ خارجہ کا یہ حال ہے کہ نہ یو اے ای کے حکام کے ساتھ بات کی اور نہ قوم کو یہ بتاسکی کہ ویزوں سے متعلق حقیقی پالیسی کیا ہے؟