مارچ کے شرکا نے دربوکے کی تھاپ پہ بلندو بالا نعرے لگائے جن میں طلبہ یونین کی بحالی کے نعرے لگائے گئے۔ شرکا نے ملک میں طلبہ کے اوپر جاری استبداد کے اوپر بات کی۔
دوپہر 2 بجے شروع ہونے والا یہ مارچ نعرے لگاتا 4 بجے پنجاب اسمبلی پہنچا جہاں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹیو کی ذیلی تنظیم آرٹسٹ اسمبلی نے ایک پلے پرفارم کیا جس میں ملک میں تعلیمی اور پسے ہوئے دیگر طبقات کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
مارچ میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو طالب علم کھیت کمار نے بھی بات کی جس کا تعلق سندھ سے تھا۔ طالب علم نے سندھ میں جاری جبری مذہب تبدیلی اور مارچ کے شرکا کو اداروں میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بتایا۔
مارچ سے حقوق خلق موومنٹ کے رہنما عمار علی جان نے اظہار خیال کیا اور کہا کہ ریاست طلبہ سے خوفزدہ ہے اس لیے اسٹبلشمنٹ طلبہ یونین بحال نہیں ہونے دیتی۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین کو دھمکیاں دی گئیں ان پر بغاوت کے پرچے کاٹے گئے۔ انہوں نے کہا کہ فیض نامی ایک شخص نے طلبہ کو دھمکی لگائی تھی کہ میں تمہارا نام و نشان مٹا دوں گا، مگر آج وہ چلا گیا ہے مگر طلبہ اپنی قوت کے ساتھ دوبارہ وہیں کھڑے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کی بیٹی اور صحافی منیزے جہانگیر نے بھی مارچ کے شرکا سے بات کی اور ان کی جدوجہد کا سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست طلبہ سے خوفزدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ یونین جمہوریت کی اساس تصور کی جاتی ہیں مگر پاکستان میں طلبہ سے یہ بنیادی آئینی حق سالوں سے چھینا جارہا ہے۔
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکیٹو کی ترجمان مقدس جرال کا کہنا تھا کہ طلبہ کو اس وقت کیمپس پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے جس میں بنیادی مسلئہ بھاری فیسیں اور ہراسگی ہے۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو مفت تعلیم کا حق دیتا ہے۔ لیکن 70 سال گزرنے کے باوجود آج تک عوام کو یہ حق نہیں مل سکا۔ ہم اس حق کو عملی طور پر حاصل کرنے کے لیے ہی آج سڑکوں پر ہیں۔ غریب طلبہ کے لیے فیس دینا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال کے باعث تو یہ ناممکن ہو چکا ہے اور حکومت کوئی تعلیمی پیکج دینے کی بجائے فیسوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیمپس پر طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے مناسب ڈھانچہ موجود نہیں۔ یہ مسائل اس لیے ہیں کیونکہ فیصلہ سازی میں طلبہ کی نمائندگی نہیں۔ اس لیے ہم فی الفور طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حقوق خلق موومنٹ پنجاب کے جنرل سیکرٹری مزمل خان نے کہا کہ آج ملک کے کئی شہروں میں طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا طلبہ مسائل کا سامنا تو تھا ہی لیکن موجودہ حالات میں فیسوں اور پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی نے طلبہ کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اسی لیے آج ہم سڑکوں پر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ خاص طور پر دوہرا جبر برداشت کر رہے ہیں، اول وہاں معیاری تعلیمی ادارے ہی نہیں اور جو ادارے ہیں ان کے طلبہ کو بھی آئے روز گرفتار اور اغواہ کیا جا رہا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور تمام گرفتار طلبہ کو رہا اور اغواہ طلبہ کو بازیاب کیا جائے۔
مختلف مزدور رہنماوں کا کہنا تھا کہ آج طلبہ اپنے حقوق کا مطالبہ لئے لال جھنڈوں کے ساتھ مال روڈ پر نکلیں ہیں اور اس وقت پورے لاہور میں لال لال لہرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مارچ میں تمام محنت کش تنطیمیں، ٹریڈ یونینز، کسان تنظیمیں، مزدور تنظیموں تمام نے شرکت کی ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کمر توڑ مہنگائی کے دوران کیے جانے والے ان کے مطالبات درست ہیں۔ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں اور عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ اس جدوجہد میں تمام پسے ہوئے طبقات کے شانہ بشانہ چلیں گے۔
آخر میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر قیصر جاوید نے احتجاج میں شرکت کرنے والی تمام طلبہ، ڈاکٹرز، اساتذہ، مزدوروں، خواتین اور وکلاء کی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو تمام پسے ہوئے طبقات کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہے اور آپ ہمیشہ ہر جدوجہد میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کو پہلی صف میں کھڑا ہوا پائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اب بھی طلبہ یونین بحال نہ کی گئی تو ہم جلد اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔