3 نومبر کو ایک احتجاجی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے قاتلانہ حملے میں محفوظ رہنے کے بعد عمران خان نے شہباز شریف، جو ان کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بنے تھے، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک تیسرے شخص پر انہیں قتل کرنے کی سازش تیار کرنے کا الزام لگایا۔ سول ملٹری تعلقات میں ایک نمایاں دراڑ ڈالتے ہوئے عمران خان نے دعویٰ کیا کہ تیسرا شخص پاکستانی فوج کی جاسوس ایجنسی آئی ایس آئی کا ایک میجر جنرل تھا۔ اسی ایجنسی نے اقتدار میں آنے کے لئے عمران خان کی حمایت کی تھی۔
عمران خان کی فوج سے ہاتھ ملانے کی کہانی اور ان کے زوال اور جرنیلوں کے ساتھ محاذ آرائی پاکستان میں سیاست دانوں کے اختیارات محدود ہونے کی یاد دہانی ہے۔ یہاں فوج نے 33 سال تک براہ راست حکومت کی ہے جبکہ ہمیشہ ہی ایسی طاقت کا کردار ادا کیا ہے جو اقتدار کے پیچھے ہوتی ہے۔
عمران خان نے اگست 2018 میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا اور رواں سال اپریل میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے انہیں معزول کر دیا گیا تھا۔ 70 سال کی عمر میں انتہائی وجیہہ، بالکل بے وقعت اور ضدی ہونے کے باعث عمران خان نے اقتدار سے بے دخل ہونے کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔
اب وہ کئی مہینوں سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اپنی برطرفی کا الزام امریکی سرپرستی میں تیار ہونے والی غیر ملکی سازش پر لگا رہے ہیں اور شہباز شریف کی حکومت کو 'چوروں' پر مبنی 'امپورٹڈ حکومت' قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے 28 اکتوبر کو پورے پاکستان میں ایک بھرپور مارچ کا آغاز کیا جس میں فوری انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ ان انتخابات میں ابھی پورا سال پڑا ہے۔
عمران خان کی اصل وجہ شہرت ایک مضبوط عزم والے کرکٹ کپتان کی ہے جس نے 1992 میں ایک نسبتاً کمزور ٹیم کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ یہ کہانی ان کے سیاست میں بھی ڈٹے رہنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے 1992 میں اپنی ٹیم کو ایسے شیر کی طرح کھیلنے کو کہا تھا جسے کونے میں لگا دیا جاتا ہے اور ٹیم نے فتح کے لئے اپنی جان لڑا دی۔
تاہم سیاست میں عمران خان کی شبیہ اور حوصلہ کافی نہیں تھا۔ انہوں نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور ڈیڑھ دہائی تک انتخابی طور پر کامیاب ہونے کے لیے بھرپور کوشش کرتے رہے تاہم انہیں 342 رکنی قومی اسمبلی میں محض ایک ہی سیٹ مل سکی۔
بہت سے پاکستانی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاک فوج کو محسوس ہوا کہ عمران خان اگر مقبول ہو جاتے ہیں تو دو بڑی سیاسی جماعتوں کے تسلط کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو بدل بدل کر اقتدار میں آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جو ان کی ہلاکت کے بعد ان کے شوہر اور بیٹے کو وراثت میں ملی اور دوسری سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) تھی۔
2010 کی دہائی کے اوائل میں عمران خان نے پاکستان کی فوج کے ساتھ اتحاد کر لیا اور پرانی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود طاقت ور سیاست دانوں کو اپنی پارٹی میں خوش آمدید کہا۔ تحریک انصاف نے اپنے آپ کو بدعنوانی اور بدانتظامی کے خلاف ایک عوامی تحریک کی شکل دی، ایک نئے پاکستان کا وعدہ کیا، اسلام کے ابتدائی دنوں کے مطابق ایک فلاحی ریاست کی بات کی اور عمران خان نے صوبہ خیبر پختونخوا، جو پہلے شمال مغربی سرحدی صوبے کے نام سے جانا جاتا تھا اور افغانستان کی سرحد سے متصل فاٹا کے علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
وہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ نشستوں کے حساب سے ان کی پارٹی تیسرے نمبر پر آ گئی لیکن نواز شریف نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے حکومت بنائی۔ تین سال بعد 2016 میں نواز شریف جو کہ موجودہ وزیر اعظم کے بڑے بھائی ہیں، اور فوج کے مابین قومی سلامتی پالیسی کے معاملات پر اختلافات پیدا ہو گئے اور فوج نے نواز شریف کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔
1947 میں پاکستان بننے کے فوراً بعد سے، فوجی جرنیل فوج کو چیلنج کرنے کی کوشش کرنے والے سیاست دانوں کو برطرف کرتے آئے ہیں، مارشل لا کے ذریعے یا پھر فرماں بردار اور خاص لوگوں کو انتخابات میں مدد فراہم کر کے۔
عمران خان نے نواز شریف اور ان کے خاندان پر بدعنوانی کے الزامات لگا کر ان کی برطرفی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ برطرفی انتخابات کے ذریعے سے نہیں بلکہ عدالتی تحقیقات اور مقدموں کے ذریعے سے چاہ رہے تھے۔ 2017 میں کرپشن کے الزام میں نواز شریف کی برطرفی کے بعد عدلیہ نے انہیں اثاثے چھپانے اور 'صادق اور امین' نہ ہونے کے باعث عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا کہ انہوں نے اپنے عہدے کا استعمال ذاتی فائدے کے لیے کیا۔
2018 کے انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کو فوج کی پسندیدہ ترین پارٹی کے طور پر دیکھا گیا۔ میڈیا کو دبایا گیا اور ان پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ ان انتخابات سے متعلق کافی شواہد تھے کہ پاکستان کی فوج نے عمران خان کی جیت میں مدد کے لیے مداخلت کی۔ اپنے پہلے تین سالوں میں عمران خان مسلسل اس بات پر اتراتے رہے کہ وہ اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف کی دوسری تین سالہ مدت کے لیے توسیع بھی دی۔
عمران خان کے دور کی پہچان شہری آزادیوں اور آزاد پریس کو نظر انداز کرنے، ان کے مخالفین کو نشانہ بنانے اور پارلیمانی جمہوریت کے طریقہ کار کو نظر انداز کرنے کے طور پر بنی ہے۔ وہ معیشت کو بہتر بنانے میں ناکام رہے، افراط زر میں اضافہ ہوا اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے لیے اس وقت اپنی امداد روک دی جب عمران خان کی حکومت نے اپنے وعدوں پر قائم رہنے سے انکار کر دیا۔
ان کی خارجہ پالیسی بھی اچھی نہیں رہی۔ امریکہ، سعودی عرب اور چین کے ساتھ پاکستان کے اہم ترین تعلقات ہیں اور یہ تینوں ان کے دور میں سرد مہری کا شکار رہے۔ صدر بائیڈن نے اپنی مدت ملازمت کے آغاز کے بعد عمران خان کو رسمی فون کال تک نہ کی جبکہ اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کم و بیش تعطل کا شکار رہے۔
فروری 2019 میں عمران خان نے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مشرق وسطیٰ سے باہر اپنے پہلے دورے پر آنے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا خیرمقدم کیا۔ ستمبر 2019 میں عمران خان نے ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کرنے اور دسمبر میں ملائیشیا میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کا سربراہی اجلاس منعقد کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان منصوبوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خراب کر دیا جس سے پاکستان کو مالی معاونت ملتی ہے۔ اس وجہ سے عمران خان کو اپنے اعلان کردہ منصوبوں سے دستبردار ہونا پڑا۔
حکمرانی کی ناکامیوں کے علاوہ اکتوبر 2021 میں عمران خان نے فوج کے اہلکاروں کے فیصلوں میں مداخلت کا 'بنیادی گناہ' کیا۔ انہوں نے آئی ایس آئی کے لیے نئے سربراہ کی تقرری کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ مبینہ طور پر عمران خان لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بدستور اس عہدے پر برقرار رکھنے کے حامی تھے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہر سطح پر افسران کو ترقی دینے اور انہیں تعینات کرنے کے اپنے استحقاق کا پوری شدومد سے دفاع کرتی ہے۔ جنرل باجوہ نے جنرل فیض حمید کی جگہ نیا آئی ایس آئی چیف مقرر کیا۔ عمران خان، جنہوں نے بطور وزیراعظم آرمی چیف کی مشاورت سے انٹیلی جنس سربراہ کا تقرر کیا مگر اس تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے تین ہفتے لے کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
پاکستانی میڈیا ان قیاس آرائیوں کی زد میں تھا کہ عمران خان نومبر 2022 کے آخر میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض حمید کو آرمی چیف مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے اگرچہ ان افواہوں کی تردید کی لیکن انہیں جو نقصان پہنچنا تھا پہنچ چکا تھا۔ خان صاحب اور آرمی چیف اب ایک پیج پر نہیں رہے تھے۔ مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے دنوں میں جنرل باجوہ کے ایک ترجمان نے عوامی طور پر اعلان کیا کہ فوج کا 'سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔
ملک پاکستان کو یہ پیغام پہنچا کہ عمران خان اب بھی وزیر اعظم رہ سکتے ہیں لیکن وہ اب فوج اور انٹیلی جنس سروسز کی حفاظتی چھتری میں نہیں ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد انہیں ہٹانے کے لیے آگے بڑھا اور عمران خان کی اپنی پارٹی کے اہم اتحادی اور قانون ساز ان سے الگ ہو گئے۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی۔
عمران خان نے قومی اسمبلی کو تحلیل کر کے اعتماد کے ووٹ سے بچنے کی کوشش کی جس سے ان کی حکومت کے مستقبل کا تعین ہونے جا رہا تھا لیکن سپریم کورٹ نے ان کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ووٹنگ کرانے کا حکم دے دیا۔ عمران خان کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں رہی تھی اور یوں وہ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکال دیے گئے۔
اپوزیشن اتحاد کے رہنما شہباز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا اور فوج کے ساتھ طویل عرصے سے ٹوٹے ہوئے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ عمران خان کی رخصت کے بعد ان کے سب سے بڑے حامیوں جو فوج کے بھی بڑے حامی رہے ہیں یعنی شہری نوجوانوں اور متوسط طبقے نے پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع کر دیں، املاک کو نقصان پہنچایا اور فوجی چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
عمران خان نے سیاسی شہید کے طور پر فوری انتخابات کا مطالبہ پھر سے شروع کر دیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ فوج ہمیشہ پاکستان کی سیاست پر حاوی رہے گی اور ڈان اخبار کو بتایا کہ فوج اپنی طاقت کے مثبت استعمال سے اس ملک کو ادارہ جاتی تباہی سے نکال سکتی ہے۔
عمران خان نے اپنی برطرفی کے پیچھے امریکی سازش کے اپنے الزامات کو بھی واپس لے لیا ہے، اس اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستانی فوج امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ان کے نئے بیانیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سیاست میں فوجی مداخلت سے خوش ہیں جب تک کہ یہ ان کی اپنی حمایت میں ہو۔
جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو نیا آرمی چیف مقرر کیا، جو منگل کو جنرل باجوہ کے ریٹائر ہونے کے بعد عہدہ سنبھالیں گے۔ جنرل عاصم منیر کی 2019 میں عمران خان سے اس وقت تنازعہ ہوا تھا جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔
اس کے باوجود عمران خان کا پاپولر بیانیہ وسیع تر توجہ حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے اوپر چلی گئی ہے۔ حالیہ سیلاب نے 3 کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے اور تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کو استحکام اور بہتر طرز حکمرانی کی ضرورت ہے، لیکن عمران خان کے عزائم سیاسی انتشار کو بڑھاوا دینے پر کاربند ہیں۔
عباس ناصر کا یہ مضمون The New York Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔