شہباز شریف کی شدید خواہش ہے کہ نواز شریف، اپنی بیٹی کو لے کر بیرون ملک کوچ کر جائیں۔ لیکن، نواز شریف ایسا ہر گز نہیں چاہتے۔ قید کی صعوبت، سیاسی نا اہلی کا زخم اور بی ٹی کی قید کے گھاؤ کے بعد نواز شریف کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ وہ اب اس موقع پر کسی بھی قسم کی ڈیل یا ڈھیل کا ٹھپہ اپنے اوپر لگوا کر ساری تپسیا کو بھنگ نہیں کرنا چاہتے۔
دوسری طرف، شہباز شریف اپنے قریبی حلقوں میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے اشارہ ہو چکا ہے کہ اگر وہ اپوزیشن کی جانب سے کھڑا کیا ہوا دھرنا چیلنج، "میننج" کر دیتے ہیں تو وزارت عظمی کا ہما شائد ان کے سر بھی بٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ اپنے باؤ جی کو سمجھا بجھا کر عازم ولایت کر سکیں تو آئندہ کسی انتظام میں ان کی حیثیت اپوزیشن سے بدل کر دوسری طرف بھی ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے لوگ، آف دا ریکارڈ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں بھی یہ بات اب دبے لفظوں میں سمجھائی جا رہی ہے کہ اگر اقتدار کا راستہ دیکھنا ہے تو شہباز صاحب کے پیچھے چلنے میں ہی عافیت ہے لیکن اگر مزید کٹھنائیوں کا سامنا کرنے کی ہمت ہے تو بے شک مریم اور نواز شریف کا طریقہ چن لیں۔
مسلم لیگ ن کی سیاست اب ایک دوراہے پر ہے، جہاں ایک طرف دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کے امکانات روشن ہیں لیکن یہ ایک ایسا سراب ہی ثابت ہو گا۔ جس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر کئی اچھے اچھے صحرا برد ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف اور مریم نواز جو شائد ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے حق میں نہیں اب سمجھتے ہیں کے رولز آف گیم کے تعین کرنے کا اس سے سنہرا موقع نہیں ملے گا۔ ن لیگ کا دوراہا صرف ان کی فرسٹ فیملی کے لیے ہی نہیں بلکہ سینئر لیڈرشپ کے لیے بھی ہے۔ جو زیادہ تر جی ٹی روڈ اور وسطی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس نے 2018 میں بھی نواز شریف کو بھرپور ووٹ ڈالا ہے۔
اب خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر اور خرم دستگیر جیسے منجھے ہوئے سیاستدانوں کے لیے فیصلے کا وقت ہے۔ وہ ن لیگ کو ش لیگ بنانے میں ہاتھ بڑھائیں یا پھر اچھے دنوں اور مریم نواز کی واپسی کا انتظار کریں۔
اگلے چند روز بہت اہم ہیں۔ مسلم لیگ ن کی سمت کے تعین کے لیے، اس ملک کے حقیقی فیصلہ سازوں کے مستقبل کے لیے اور یقینا مملکت خداداد کے لیے بھی، مسلم لیگ ن کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔