اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ مذکورہ درخواست کی سماعت کی، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کو چھٹی پر ہونے کے باعث اس بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو گذشتہ رات معمولی ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور ان کی زندگی خطرے میں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ میڈیکل رپورٹ میں کیا ایمرجنسی ہے، ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنا چاہیے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔
عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ ٹی وی چینلز پر ڈیل سے متعلق خبریں نشر کی گئی ہیں۔
اس پر عدالت نے متعلقہ چینلز اور اینکرز کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے۔
عدالت عالیہ نے چیئرمین پیمرا، 2 ٹی وی پروگرامز بریکنگ نیوز ود مالک اور اینکر سمیع ابراہیم کو نوٹس جاری کیے، ساتھ ہی پروگرام میں شرکت کرنے والے عامر متین، کاشف عباسی اور حامد میر کو بھی نوٹس جاری کیے گئے۔
عدالت نے ان تمام افراد کو 4 بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے وزیراعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو بھی نوٹسز جاری کیے ہیں کہ وہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کر کے 4 بجے عدالت میں بھجوائیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنا چاہیے۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک الگ درخواست دائر کی تھی، جس میں چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔ جس میں 25 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کر لی تھی۔