آئی جی کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اغواء کے واقعے کی جگہ سیف سٹی کا کوئی کیمرہ نصب نہیں تھا ،نہ ہی واقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود ہے اور نہ ہی کسی رہائشی نے بیان ریکارڈ کر ایا ہے۔ علاوہ ازیں اغوا کے واقعے کی ویڈیو فوٹیج غیر معیاری کیمرے سے بنی ہے اور نادرا نے بھی ویڈیو میں نظر آنے والوں کی شناخت سے معذرت کر لی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اغوا کاروں کی گاڑیوں کے نمبر بھی معلوم نہیں ہو سکے ہیں، تاہم گاڑیوں کی نشاندہی کی کوشش جاری ہے۔
یاد رہے کہ صحافی مطیع اللہ جان کو 21 جولائی 2020 کو اسلام آباد کے علاقے جی سکس میں انکی اہلیہ کے سکول کے باہر سے سے اغوا کیا گیا تھا اور تقریباً 12 گھنٹے گمشدگی کے بعد اسلام آباد سے 70 کلومیٹر دور فتح جنگ کے علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا اور اور آئی جی اسلام آباد کو واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔