جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم دبئی میں بھارت کو دباؤ میں لا رہی تھی تو کوئٹہ میں بلوچستان عوامی پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی مخلوط حکومت کے سربراہ جام کمال کو یقین ہو چکا تھا کہ بازی الٹ چکی ہے لہذا انہوں نے استعفیٰ دیا اور گورنر بلوچستان کو بھیج دیا جنہوں نے اسے فوری طور پر منظور کر لیا۔
عمران خان نے جام کمال کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے کیوں کہ طاقت ور ریاستی اداروں نے اس معاملے میں مداخلت سے گریز کیا۔ جام کمال نے صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے ایک دن قبل گھٹنے ٹیک کر اپنے ایک بیان میں کہا کہ عمران خان اپنے اردگرد موجود لوگوں پر نظر ڈالیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے اشارہ دیا کہ انہیں ہٹانے میں کچھ وفاقی وزراء نے اہم کردار ادا کیا۔
جام کمال کی حکومت ختم ہونے کے بعد بلوچستان میں جو نئی حکومت بنے گی وہ عمران خان کی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل کی اتحادی بنے گی۔ بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی۔
جس وقت جام کمال اپنا استعفیٰ گورنر کو بھیج رہے تھے عین اسی وقت وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کالعدم تحریک لبیک کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر رہے تھے۔ انہوں نے اس کالعدم تنظیم کے گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے اور ان کے خلاف مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
چند ماہ پہلے اپریل 2021 میں یہی شیخ رشید تھے جنہوں نے تحریک لبیک پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس تنظیم کے ہاتھوں '' 580 پولیس اہلکار زخمی اور دو شہید‘‘ ہو گئے۔ حالیہ واقعات میں بھی کچھ پولیس اہلکاروں کی جان گئی اور تحریک لبیک والے بھی سوشل میڈیا پر اپنے کئی ساتھیوں کی لاشیں دکھاتے رہے۔ وزیرداخلہ نے بڑے اعتماد سے کہا کہ تحریک لبیک والے بدھ تک اپنے مظاہرے بند کر دیں گے۔
اگر بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ طے پاتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن یہ سوال نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر تحریک لبیک کے ساتھ بات چیت کر لی جاتی ہے اور سعد رضوی کو رہا کیا جا سکتا ہے، تو رکن قومی اسمبلی علی وزیر پر مقدمات کیوں ختم نہیں ہو سکتے؟ اس سوال پر بحث ان تضادات کو سامنے لائے گی جن کی وجہ سے آج تک پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو سکی۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک نوٹیفیکیشن کے معاملے میں تو بہ ظاہر قانون کی بالادستی اور میرٹ کا مسئلہ بنایا لیکن آج تک یہ نہیں بتا سکے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کون سے میرٹ پر پورا اترتا ہے؟ اب وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے شوکت ترین کو خیبر پختونخوا سے سینیٹر بنوانا چاہتے ہیں۔
شوکت ترین صاحب ذاتی طور پر بڑے اچھے آدمی ہیں لیکن ان کا میرٹ صرف یہ ہے کہ انہیں آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں وزیرخزانہ بنایا تھا اور آج عمران خان انہیں اپنا وزیرخزانہ بنائے رکھنے پر بضد ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ شاید کرکٹ میں عمران خان کسی حد تک میرٹ کا خیال رکھتے تھے لیکن سیاست و حکومت میں وہ میرٹ کا نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے نوٹیفیکیشن کے معاملے کو لٹکانا نہ تو قانون کی بالادستی کا معاملہ تھا اور نہ ہی میرٹ کا معاملہ تھا۔ وہ افغانستان کے حالات کی آڑ لے کر اس ادارےکے سربراہ کی تبدیلی کا معاملہ مؤخر کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ان کے خیال میں میرٹ کا مطلب یہ ہے کہ جو میرے قریب ہے وہ قریب رہنا چاہیے۔ وہ کسی کو اپنے اتنے قریب رکھنے کی کوشش میں تھے کہ وہ اپنے ادارے کو بہت دور دور لگنے لگا۔ اسی حساس معاملے پر میڈیا میں کھلم کھلا بحث ہوئی۔
ایک طرف شیخ رشید احمد یہ دعوے کرتے رہے کہ جمعے تک سب ٹھیک ہو جائے گا اور نوٹیفیکیشن بھی جاری ہو جائے گا دوسری طرف باخبر ذرائع کے حوالے سے دعوے کیے گئے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئندہ سال آرمی چیف مقرر کرنے پر غور ہو سکتا ہے۔
ہر کسی کو نظر آ رہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کا نوٹیفیکیشن افغانستان کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر لٹکایا گیا۔ اس تخریب میں ایک تعمیر کا پہلو یہ تھا کہ عمران خان نے ان لوگوں کے مؤقف کو غلط ثابت کر دیا جو یہ سمجھتے تھے کہ وزیراعظم کے ہر صحیح یا غلط فیصلے کو جی ایچ کیو کی غیرمشروط حمایت حاصل ہوتی ہے یا تمام اہم سیاسی فیصلے عمران خان نہیں بلکہ فوجی قیادت کرتی ہے۔
اسی تاثر کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کی سیاست میں ''نکے دا ابّا‘‘ کی اصطلاح بھی متعارف ہوئی لیکن حالیہ واقعات سے پتا چلتا رہا ہے کہ ''نکّہ‘‘ کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی اپنا ابّا سمجھتا ہے۔
عمران خان نے اپنے حالیہ رویے سے اس رائے کو تقویت دی کہ انہیں کسی اور سے نہیں بلکہ سب سے زیادہ خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ وہ کبھی میڈیا سے لڑتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن سے لڑتے ہیں اور کبھی اپنے آپ سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے مہنگائی کے خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے ’’ن میں سے ش‘‘ نکالنے پر زیادہ توجہ دی اور ابھی تک اس میں ناکام ہیں۔
ایک زمانے میں سیاسی مخالفین پر بھینس چوری کے مقدمات بنائے جاتے تھے لیکن عمران خان کے دور میں سیاسی مخالفین اور ناقدین کی کردار کشی کے لیے تمام حدود کو عبور کر لیا گیا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ کچھ ہفتے قبل سوشل میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کی کچھ ایسی ویڈیوز پھیلائی گئیں جن کے باعث ان کے خاندان کے کچھ لوگ شدید ذہنی صدمے کا شکار ہوئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس پر محمد زبیر کی پارٹی کے کچھ اہم رہنماؤں نے بھی ان کا مناسب دفاع نہیں کیا لیکن پھر نجانے کیسے ایک ادارے نے کچھ لوگ گرفتار کر لیے۔ گرفتار شدگان نے بتایا کہ محمد زبیر کی ویڈیوز خودساختہ تھی اور یہ ویڈیو ان لوگوں نے خود سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی۔ اس معاملے پر میری دو سے زیادہ اہم لوگوں سے بات ہوئی اور جو مجھے پتا چلا وہ بہت افسوس ناک ہے۔ ابھی تک یہ ثبوت نہیں ملا کہ محمد زبیر کے خلاف یہ سازش کس کے حکم پر تیار ہوئی لیکن بہ ظاہر یہ لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی یہ چاہتا تھا کہ مسلم لیگ ن اور فوج ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت کے کچھ وفاداروں نے بعض صحافیوں اور سیاست دانوں کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کر رکھا ہے اور بوقت ضرورت اس گفتگو کو سوشل میڈیا پر پھیلا کر صحافیوں کو بھی بدنام کرنے کی کوشش ہو گی لیکن لوگوں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ وہ ناصرف خود قانون توڑ رہے ہیں بلکہ عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کی اہم شخصیات کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان سب کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں۔ اسی قسم کے پیغامات دے کر عمران خان اپنی حکومت کو مضبوط نہیں بلکہ دن بہ دن کم زور کر رہے ہیں۔
آج عمران خان کے اتحادیوں کی حکومت کا بلوچستان میں خاتمہ ہوا ہے اور ان کے وزیر داخلہ نے کالعدم تحریک لبیک کے سامنے ہتھیار پھینک دیے ہیں، کل کو ان کے وزراء الیکشن کمیشن کے سامنے معافیاں مانگتے نظر آئیں گے پھر کچھ وزراء پنجاب میں بھی وہی کر دکھائیں گے جو عبدالقدوس بزنجو اور ظہور بلیدی نے کوئٹہ میں کر دکھایا اور اسلام آباد میں بھی وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کی عمران خان کو بھنک پڑ چکی ہے۔
شاید اسی لیے وہ سیاسی شہید بننے کی کوشش کریں گے تاکہ تباہ حال معیشت کو اپنے سیاسی مخالفین کے گلے کا ہار بنا دیں لیکن اگر آئین و قانون کے اندر سے راستے تلاش کیے جائیں، تو شاید عمران خان ہار جائیں لیکن پاکستان جیتے گا۔
بشکریہ DW اردو