میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ انڈین ریاست مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر میں پیش آیا۔ ملزم کا نام بھیما جی واگھچورے بتایا جا رہا ہے جو امریکی نژاد بھارتی شہری اور لگ بھگ 20 سالوں سے امریکا میں مقیم ہے۔
ملزم نے رواں سال جنوری 2021ء میں انڈیا واپس آ کر احمد نگر میں عارضی رہائش اختیار کی تھی تاکہ اپنے جرم کو حقیقت کا روپ دھار سکے۔
22 اپریل کو سرکاری ہسپتال کی جانب سے پولیس کو واگھچورے کی موت کی رپورٹ موصول ہوئی۔
پولیس حکام نے موت کی تصدیق کیلئے ایک اہلکار کو ہسپتال بھیجا تو ایک شخص نے اسے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ آنجہانی واگھچورے کا بھتیجا پراوین ہے اور اس نے لاش کی شناخت کرلی ہے۔ اس موقع پر وہاں موجود ایک اور شخس ہرشد لاہمنگے نے بھی یہی بات دہرائی۔
پولیس نے تسلی کرنے کے بعد لاش کو آخری رسومات کیلئے پراوین نامی شخص کے حوالے کر دیا۔
مگر امریکی انشورنس کمپنی نے جب انشورنس کے دعوے کی جانچ پڑتال شروع کرنے کیلئے انڈین پولیس نے رابطہ کیا تو سارا پول کھل گیا۔
پولیس نے روایتی طریقہ استعمال کرتے ہوئے جب واگھچورے کیساتھ اس جرم میں ملوث اس کے ساتھیوں سے پوچھ گچھ شروع کی تو انہوں نے سارا راز اگلتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ کس کی سانپ کاٹنے سے موت ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک پڑوسی نے کہا کہ واگھچورے کا بھتیجا پراوین تو کرونا وائرس سے مر گیا تھا۔
جب پولیس نے شک کی بنیاد پر واگھچورے کے فون ریکارڈ کو کنگھالا تو پتا چلا کہ ناصرف وہ زندہ ہے بلکہ اس نے خود پراوین بن کر پولیس کو بے وقوف بنایا ، جس کے بعد پولیس نے واگھچورے کو حراست میں لے لیا۔
تفتیش کے دوران پتا چلا واگھچورے نے اپنے ساتھیوں کیساتھ مل کر یہ سارا کھیل رچایا۔ انہوں نے ایک سانپ خریدا، پھر ایک غریب شخص جو واگھچورے سے شکل میں ملتا جلتا تھا، اسے سانپ سے ڈسوا کر مار دیا۔