جموں وکشمیر کے عوام گزشتہ 70 سالوں سے بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد میں شامل ہیں۔ انہیں بدترین قسم کی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بڑی جرات کے ساتھ بھارتی محکومی اور مظالم کا مقابلہ کیا اور نئی دہلی انہیں ڈرانے دھمکانے میں ناکام رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان نے 1947ء میں آزادی کے قانون اور تقسیم کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ انڈین برٹش کالونی دو خود مختار ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس نے اپنی فوجیں جموں و کشمیر میں بھیجیں۔
بھارت نے حیدر آباد، جوناگڑھ اور جموں و کشمیر کی ریاستوں پر زبردستی قبضہ کیا۔ پہلی دو ہندو اکثریتی ریاستیں ہیں جن میں مسلم حکمران ہیں جبکہ وادی میں اکثریت مسلم آبادی کی تھی لیکن اسے ہندو حکمران چلا رہے تھے۔
ہندوستانی حکومت اور مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق کا آلہ رکھنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بہت سے عالمی مورخین ایسی کسی بھی دستاویز کے وجود کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کرتے ہیں کہ اگر یہ موجود ہوتی تو ہندوستانی حکومت اسے سرکاری طور پر یا کسی بین الاقوامی فورم پر عام کرتی۔ . ایسا کبھی نہیں ہوا۔
بدقسمتی سے، برطانوی بیرسٹر سیرل ریڈکلف کی سربراہی میں باؤنڈری کمیشن نے بھی وادی کشمیر پر قبضہ کرنے میں بھارت کی مدد کی۔ اس نے ایک مسلم اکثریتی علاقہ گورداس پور کو تقسیم کیا اور اسے بھارت کے حوالے کر دیا ، اس طرح ایک حد بندی کی گئی جس سے جموں و کشمیر کا زمینی راستہ بن گیا۔ بھارتی افواج کی آمد کے بعد ، مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تاکہ وادی کی آبادی کی حیثیت کو تبدیل کیا جاسکے۔
کشمیری عوام نے کبھی بھی غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا اور 1947 میں عوامی بغاوت کے ذریعے آزادی کی جدوجہد شروع کی۔ دریں اثناء ہندوستانی حکومت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا، کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اس کی مدد طلب کی۔
سلامتی کونسل نے جنگ بندی، جنگ بندی لائن کی حد بندی، ریاست کو غیر مسلح کرنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کی منظوری دینے والی دو قراردادیں منظور کیں۔ یہ قراردادیں 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو منظور کی گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ ان قراردادوں کا صرف ایک مرحلہ (جنگ بندی اور جنگ بندی لائن کی حد بندی) نافذ کیا گیا جبکہ مقبوضہ علاقے کو غیر مسلح کرنا اور رائے شماری کا انعقاد ابھی تک غیر عملی ہے۔
جنوری 1989ء سے 2021ء تک بھارتی فوجیوں نے تقریباً 2 لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا۔ ہزاروں خواتین کو بیوہ، بچے یتیم ہوئے جبکہ ہزاروں کشمیری خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔
کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ 10 ہزار سے زائد بے گناہ نوجوانوں کو لاپتا کیا گیا جن کے ٹھکانے کا بھی کوئی علم نہیں ہو سکا جبکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو جعلی مقابلوں میں بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کے بعد علاقے میں دریافت ہونے والی ہزاروں بے نشان قبروں میں دفن ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
سینکڑوں نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھیں گولی کے زخموں سے کھو چکے ہیں جبکہ ہزار سے زائد اپنی بینائی سے محروم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ حریت رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ جس میں گزشتہ میں ماہ یکم ستمبر2021 بطلِ حریّت، مقبوضہ کشمیر میں چلتے پِھرتے پاکستان، سیّد علی گیلانی نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے ربّ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے، آزادی کی جس جدوجہد کے لیے زندہ رہے، اپنے جیون کے92 برس گزار کر اُسی کے نام کے ساتھ آنکھیں موندلیں۔
اکتوبر میں ایک اور تاریخ کشمیریوں کے لیے اہم ہے یعنی 22 اکتوبر 1947 کو پشتونوں اور کشمیری رضاکاروں نے زمین کو آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھنا شروع کیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ بے چین ہو گیا اور بھارتی مدد کے لیے علاقے سے بھاگ گیا۔ بھارت نے فوری طور پر فوجیں لانچ کیں جو 26 اکتوبر 1947 کو سری نگر میں اتریں۔ مہاراجہ نے بعد میں انضمام کے دستخط پر دستخط کیے۔ کشمیری اور پشتون قبائلی رہنماؤں کی پیش قدمی جزوی کامیابی کا باعث بنی کیونکہ بھارتی فورسز پہلے ہی سری نگر پہنچ چکی تھیں۔ آزاد علاقے کا نام آزاد جموں و کشمیر رکھا گیا۔
5 اگست 2019ء کے بعد سے ہندوستان نے تمام موجودہ معاہدوں کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے انسانی پنجرے میں تبدیل کردیا۔ بڑے پیمانے پر نسل کشی اور آبادی میں تبدیلی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ آئی آئی او جے کے کی سیاسی قیادت حراست میں لے لی گئی یا گھروں میں نظربند کردیا گیا اور اسے زبردستی کنارہ کش کیا جا رہا۔ پاکستان نے بھارت کی ظالم اور سفاک حکومت کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ پاکستان ہمیشہ سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جنگ میں ان کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ عالمی کھلاڑی تنازع کے حل کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں، یہ خطے میں ایک انسانی مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے۔ تاہم ، متنازعہ وادی میں اس کے انتہائی کمزور کیس کی وجہ سے، بھارت اسے دو طرفہ تنازعہ قرار دیتا ہے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی شکل دینے سے گریز کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے گزشتہ سال مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا تھا:
"ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعہ کے سیاسی طول و عرض طویل عرصے سے مرکزی سطح پر ہیں، لیکن یہ وقت کے ساتھ منجمد تنازعہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس نے لاکھوں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور آج تک ناقابل برداشت مصائب کا شکار ہے۔ تمام فریقوں کی طرف سے ماضی اور حال کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کا احتساب اور متاثرین کا ازالہ ہونا ضروری ہے۔''
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کشمیر کی آزادی اور مسلسل جدوجہد کی تاریخ سے روشناس کروائیں۔ کشمیر اور پاکستان کے مابین برادرانہ تعلق اور محبت کے رشتے اور اس کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے، کیونکہ ہماری یہ نوجوان نسل ہی ہمارا مستقبل ہیں لہذا انہیں کشمیر کی اہمیت اور اس کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا بھی بخوبی علم ہونا چاہیے۔ کشمیر اور کشمیری برادری کیلئے اپنی محبت کا اظہار اور ان کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے۔
ہماری کل آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوان پر مشتمل ہے۔ ان نوجوان کو کشمیر کا سفیر بنانے کیلئے حکومتی رہنماؤں اور تعلیمی اداروں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہرادارے میں ایک ایک کشمیر چئیر اور کشمیرکمیٹی ہونی چاہئے۔ نوجوان طلباء پر مشتمل کشمیر کمیٹی اپنے اپنے اداروں میں کشمیر کے حق میں اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلئے مختلف تقریبات کا انعقاد کرے، سیمینار کروائیں، تقرری مقابلے اور کشمیری شہداء کیلئے اپنی تحریروں سے خراج تحسین پیش کریں۔ اور پھر ان نوجوان کشمیری سفیروں کو عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ احسن طریقے سے لڑنے کیلئے تیار کیا جائے تاکہ پاکستان کی بہتر نمائندگی کی جاسکے۔
اب ہمیں کشمیر بنے کا پاکستان کا نعرہ لگا کر ہی اپنا فرض ادا نہیں کرنا۔ ہمارے وہ کشمیری رہنما جنہوں نے آزادی کی اس جدوجہد میں اپنی جانوں کے نذرانے دیے ان کی اس جدوجہد کو آگے بڑھانے اور پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے ان کاوشوں کی اشد ضرورت ہے۔