سندھ میں صحافت کے میدان میں خواتین کی نمائندگی اتنی کم کیوں ہے؟

بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاوہ سندھ میں بھی خواتین کا نوکری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں عورت اگر کسی نامحرم سے بات بھی کر لے تو اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں عورت کا نوکری کرنا اور وہ بھی صحافت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

03:53 PM, 26 Oct, 2023

حضور بخش منگی

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی سحرش کھوکھر کا کہنا ہے کہ ریاست کے چوتھے ستون صحافت کے ساتھ گذشتہ 13 سال سے وابستہ ہوں، میں نے اردو نیوز چینل فائیو میں بطور رپورٹر اپنے کریئر کا آغاز کیا، دو سال چینل فائیو میں گزارنے کے بعد مجھے پرنٹ میڈیا سے آفر ہوئی اور مناسب تنخواہ اور مزید تجربہ حاصل کرنے کا سوچ کر میں عوامی آواز گروپ کے اردو اخبار روزنامہ انجام میں بطور بیورو رپورٹر شامل ہوئی اور خبریں اخبار میں کالم لکھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ تقریباً تین سال تک روزنامہ انجام سمیت مختلف اردو اخبارات کے لیے اپنے صحافتی فرائض سرانجام دیتی رہی ہوں۔ سحرش کھوکھر اس وقت سینیئر رپورٹر اینڈ اسائنمنٹ ایڈیٹر اے آر وائی نیوز سکھر بیورو ہیں۔ سحرش نے کہا کہ مجھے 2014 میں پاکستان کے بڑے نیوز چینل اے آر وائی نیوز میں کام کرنے کی آفر ملی اور میں نے وہ آفر قبول کی جس کے بعد مین سٹریم میڈیا کے بڑے نام ور ادارے اے آر وائی نیوز کے ساتھ منسلک ہو گئی اور آج تک اے آر وائی نیوز کے ساتھ کام کر رہی ہوں۔

انتھک محنت اور جدوجہد مسلسل جاری رہی ہے، حوصلہ افزائی ملتی رہی تو پاکستان کی نمایاں تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹسس میں بطور ممبر فیڈرل ایگزیکٹو کمیٹی منتخب ہوئی تھی، جبکہ اس وقت سکھر پریس کلب کی موجودہ خازن بھی ہوں۔

سحرش نے مزید یہ بھی کہا کہ خواتین کے میڈیا لائن میں نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں خاص طور پر معاشرے کی بے حسی ہے۔ ایک خاتون کو میڈیا کی فیلڈ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاوہ سندھ میں بھی خواتین کا نوکری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں عورت اگر کسی نامحرم سے بات بھی کر لے تو اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں عورت کا نوکری کرنا اور وہ بھی صحافت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس کا خاتمہ ممکن ہے اگر تعلیم اور شعور کے لیے آگاہی پروگرام ترتیب دیے جائیں۔

سحرش کا کہنا تھا خواتین کے صحافت میں نہ ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اندرون سندھ کی وہ خواتین جو کہ داد کی مستحق ہیں یا وہ خواتین جنہیں کئی گھریلو پیچیدگیوں کا سامنا ہے اور ہمارے سندھ کی وہ ہنرمند خواتین جو کہ ثقافت کو اجاگر کر رہی ہیں ان کو ہم نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر متعارف نہیں کروا پاتے۔ کئی رپورٹنگ کے پہلو ایسے ہوتے ہیں جو کہ خواتین صرف خاتون رپورٹر کو ہی بتانا بہتر محسوس کرتی ہیں مگر خواتین کی نمائندگی نہ ہونے سے خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم بھی کئی حد تک سامنے نہیں آ پاتے۔ کئی حساس ادارے جن میں خواتین صحافی باآسانی جا کر رپورٹ کر سکتی ہیں کسی بھی زاویے سے وہ بھی نہیں ہو پاتا۔

سحرش کے مطابق صحافت کے شعبے سے منسلک خواتین خوف کا شکار ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ اداروں کا رویہ، پریس کلبس یا یونینز کی سیاست میں نمائندگی نہ ملنا، اس کے علاوہ لوگوں کے رویے ان کو خوف میں مبتلا کرتے ہیں۔ آج بھی کئی ایسی صحافی خواتین ہیں جو اس فیلڈ کو جوائن کرنا چاہتی ہیں مگر حالات اور واقعات انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔

سحرش کا کہنا ہے کہ صحافت میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کے لیے ہمیں ایسے ماحول کو پیدا کرنا ہوگا جہاں خاتون خود کو محفوظ محسوس کرے۔ خواتین صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تو ممکن ہے کہ خواتین اس فیلڈ میں بلاخوف آسکتی ہیں۔

سحرش نے کہا کہ ایک خاتون رپورٹر کو دوران فیلڈ سینکڑوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سر فہرست ہراساں کرنا ہے۔ اس کے علاوہ خاتون کو مختلف طریقوں سے پریشان کرنا ہے، خاتون کے لیے ماحول خراب کرنا ہے، ایک خاتون صحافی فیلڈ میں معاشرے کی باتیں سنتی ہے جبکہ اسے اکثر و بیشتر اپنے کام کرنے کی جگہ پر بھی ایسی مشکلات سہنی پڑتی ہیں۔ خاتون رپورٹر اگرچہ کسی سیاسی پہلو سے رپورٹنگ کرے، کسی سیاست دان پہ لکھے، کسی تاجر پہ لکھے، کسی بلیک میلر پہ لکھے، کسی پارلر میں خفیہ کیمروں کا پردہ چاک کرے، دارالامان جیسے ادارے میں خواتین پہ ڈھائے مظالم کو اپنے قلم کی طاقت سے عام عوام تک پہنچائے، ایوانوں میں اس کی رپورٹنگ کے نوٹس لیے جائیں تو پھر ایک خاتون کو خاموش کروانے کا گھٹیا راستہ اپنانا عام شیوہ بن چکا ہے۔ خاتون صحافی کے صحافتی کام کے بجائے پہلا وار اس کے کردار پہ کیا جاتا ہے۔

میں بطور خاتون صحافی اپنی زندگی کے 13 سال مسلسل جدوجہد جاری رکھتے ہوئے آج روئیوں سے لڑنا سیکھ چکی ہوں۔ میں بلا خوف اپنے صحافتی فرائض سر انجام دے رہی ہوں حالانکہ میں ان سب مسائل کا سامنا کر چکی ہوں اور کر بھی رہی ہوں لیکن میں پھر بھی اپنی بہنوں سے بالخصوص میڈیا میں کام کرنے کی خواہش مند طالبات سے گذارش کروں گی کہ وہ ریاست کے چوتھے ستون میں بلاخوف آئیں اور مقابلہ کریں کیونکہ عورت کبھی بھی کمزور نہیں ہو سکتی۔ اس کی اصل طاقت اس کا اپنا اعتماد اور یقین ہے جس کے ذریعے وہ خود کو اس معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام دلوا سکتی ہے۔

سکھر یونین آف جرنلسٹس کے صدر امداد بوزدار کا کہنا ہے کہ خواتین کے صحافتی فیلڈ میں بہت کم ہونے کی دو اہم وجوہات ہیں؛ ایک تو اداروں کی جانب سے تنخواہ نہ ملنا، اگر ہو گی بھی تو 25 ہزار سے 30 ہزار تک جو کہ بہت ہی کم ہے۔ خاتون صحافی کو کم سے کم تنخواہ 50 ہزار تک دی جائے تا کہ وہ کسی بھی واقعے کو کور کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر سکے۔ مرد صحافی فیلڈ میں جاتے ہوئے لفٹ مانگ کر پہنچ سکتا ہے جبکہ ایک خاتون صحافی کسی سے لفٹ نہیں مانگ سکتی۔

دوسری وجہ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی عورتیں صحافت کے پیشے سے دور ہیں۔ عورت جرنلسٹ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور معصوم بچیوں کے مسائل اجاگر نہیں ہو پاتے۔

سات سال قبل سکھر پریس کلب میں 13 خواتین سمیت 172 جرنلسٹ تھے۔ تنخواہ نہ ملنے کے باعث کچھ فی میل صحافی سکھر سے کراچی شفٹ ہو گئیں جن میں نومیتا گل اور سیرت آسیہ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تین فی میل جرنلسٹس نے شادی کرلی اور صحافتی دنیا سے الگ ہو گئیں۔ اس وقت سکھر پریس کلب میں سحرش کوکھر اے آر وائی نیوز، کرن مرزا ڈی ڈبلیو، لائبہ این ٹی این، کلثوم اردو پوائنٹ، صبا بھٹی نیوز ون اور فری لانسر زبیدہ کنول کام کر رہی ہیں جو کہ پریس کلب سکھر کی اراکین ہیں۔ سحرش کھوکھر فنانس سیکریٹری، کرن مرزا ایگزیکٹو ممبر کے عہدوں پر فائز ہیں۔

بینظیر حکومت دور 1992 سے لے کر پرویز مشرف کے دور تک ملک کے دیگر شہروں کی طرح سندھ کی خواتین کو جاب کرنے کے پر قائل کیا گیا۔ اس وقت اسمبلیوں سے لے کر دیگر شعبوں میں کافی خواتین آنے لگی تھیں مگر واحد صحافت کا شعبہ ہے جس میں اندرون سندھ کے 23 اضلاع میں خواتین فیلڈ رپورٹرز کی تعداد صفر ہے۔ 30 فیصد معاشرتی مجبوری ہے جبکہ 70 فیصد تنخواہوں کی عدم فراہمی کے باعث عورتیں صحافت کے پیشے سے عدم دلچسپی رکھتی ہیں۔

سکھر پریس کلب کے آئین کے مطابق خواتین رپورٹر کو ممبر بنانے کے لیے نرمی کے قوانین استعمال کیے جاتے ہیں۔ تین ماہ تک کسی بھی ادارے سے کام کرنے والی فی میل صحافی کو فوراً ممبرشپ حاصل ہو جاتی ہے۔ جبکہ میل صحافی کے لیے کم سے کم 5 سال تک کسی ادارے میں کام کرنے کی شرط لاگو ہے۔

شمالی سندھ کے وہ اضلاع جن میں ایک بھی خاتون صحافی نہیں ہے ان اضلاع کی نام اور آبادی ادارہ شماریات پاکستان (PBS) 2023 کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یہ ہیں؛

 جیکب آباد 1174097، قمبر شہداد کوٹ 1514869، کشمور 1233957، لاڑکانہ 1784453، شکار پور 1386330، سکھر 1639897، خیر پور 2597535 اور گھوٹکی 1772609۔ ان اضلاع میں خواتین کی تعداد مجموعی آبادی کا 50 فیصد حصہ بنتی ہے مگر افسوس کہ ان اضلاع کی خواتین صحافت کے شعبے میں صفر ہیں جبکہ دیگر شعبہ جات ایجوکیشن 22 فیصد، ہیلتھ اور نجی این اوز میں 20 فیصد خواتین نوکریاں کر رہی ہیں۔ اس وقت سکھر، خیرپور اور لاڑکانہ میں مجموعی طور پر 9 خاتون صحافی ہیں۔

کنٹرولر شاہ لطیف خیرپور یونیورسٹی سید مہدی شاہ نے بتایا کہ شاہ لطیف یونیورسٹی میں ماس کمیونیکشن کا سیشن تاحال شروع نہیں کیا گیا ہے جبکہ ایم اے جرنلزم کے لیے سال 2022 میں 55 طلبہ و طالبات نے ایڈمیشن لیا ہے جن میں 18 لڑکیاں جبکہ 37 لڑکے ہیں جو ریگولر کلاسز لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم اے جرنلزم کی ڈگری کے لیے کم ہی طلبہ اپلائی کر رہے ہیں یا تو پھر کچھ ایسے طلبہ بھی ہیں جو آن لائن کلاسز اٹینڈ کرتے ہیں۔ سال 2022 کے طلبہ کے امتحانات کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ دسمبر کے مہینے میں امتحانات ہوں گے۔ سلپوں کی تقسیم کا مرحلہ چل رہا ہے۔ اس سے قبل سال 2021 میں ایم اے جرنلزم سیشن کے لیے تعداد 36 تھی جن میں 11 لڑکیاں شامل تھیں جو امتحانات کا مرحلہ مکمل کر کے ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں جبکہ اس سال ایڈمیشن میں اضافہ ہوا ہے۔

ویج بورڈ میں تین قوانین ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں؛ ادائیگی اجرت کا قانون/ پے منٹ آف ویجز ایکٹ 1936 قانون اقل اجرت/ کم از کم اجرت کا قانون 1961 پاکستان کا قانون اقل اجرت برائے غیر مہارت یافتہ کارکنان 1969 کوئلے کی کان میں کام کرنے والے کارکنان کی اجرتوں کے تعین کا قانون 1960 کے مطابق فی میل رپورٹر کی کم سے کم تنخواہ ایک لاکھ تک ہو گی اور اس قانون پر عمل کیا جائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سکھر پریس کلب میں 50 فیصد خواتین رپورٹرز نظر آئیں گی۔

جمیلاں منگی، ممبر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان خیرپور نے کہا کہ بہت سارے ایسے ایشوز ہیں جن میں دارالامان، لیڈی جیل خانہ جات، ہسپتالوں میں زچگی وارڈوں کی عورتوں کے کئی مسائل ہوتے ہیں جو اکثر عورتیں مرد رپورٹر کے ساتھ شیئر نہیں کر پاتیں۔ وہاں پر عورت رپورٹر ہو گی تو کئی سٹوریز نکل آئیں گی۔ میں نے پانچ سال قبل خیرپور یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم کیا تھا میرا خود شوق تھا کہ میں صحافی بنوں مگر میرے گھر والے ہرگز راضی نہیں ہوئے۔ وہ کہتے تھے کہ کوئی بھی جاب کر لو مگر جرنلسٹ نہ بنو۔ اگر میری سپورٹ میرے ماں باپ کرتے تو شاید آج میں ایک ادارے سے منسلک ہوتی۔ وجہ یہ تھی کہ صحافی کو زیادہ خطرے ہوتے ہیں، جانی اور جسمانی۔ اس کے علاوہ عدم تحفظات ہونے کی اہم وجہ ہے جس سے اہل خانہ نہیں چاہتے کہ اپنی بیٹی کو اس خطرناک کام سے جڑنے دیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہراسانی کے واقعات کا بھی خوف ہوتا ہے مگر اکثر ماحول بہتر ہو گیا ہے۔ عورتوں کو جاب کی اشد ضرورت ہے وہ نکلنا چاہتی ہیں انہیں ادارے سپورٹ کریں تو صحافتی پیشے میں بیشتر عورتیں کام کریں گی۔ حیدرآباد کے بعد سکھر میں 6، لاڑکانہ 1 جبکہ خیرپور میں بھی ایک خاتون رپورٹر ہے جو فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ دھاریجو چیئرپرسن سندھ سھائی ساتھ سکھر نے کہا کہ ہماری ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 86 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 26 فیصد خواتین کو کام کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ پاکستان میں جہاں مردوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے وہیں خواتین کی شرح 46 فیصد ہے۔ پارلیمنٹ میں 79 فیصد مردوں کے مقابلے میں 21 فیصد خواتین ہیں جبکہ پاکستان میں 97 فیصد بڑے عہدے مردوں کے پاس ہیں اور محض 3 فیصد عہدے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ پاکستان میں 78 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 22 فیصد خواتین ماہرانہ پیشہ ور طبقے میں شمار ہوتی ہیں۔ جہاں تک صحافت کے شعبے کی بات ہے تو خاص کر کے اندرون سندھ کے اکثر اضلاع میں خاتون صحافی نہیں ہیں جس کی وجہ خاتون کو مرد حضرات آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ صحافت کے شعبے میں جس پریس کلب میں عورت ہو گی تو مردوں کو اچھا نہیں لگے گا جس وجہ سے مرد حضرات صحافی بن کر اپنی پاور کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح خاتون ہو گی تو وہ پروفیشنلی اپنے پیشے کو استعمال کر سکے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنی تنظیم میں عورتوں کو آگاہی پروگرام منعقد کر کے انہیں صحافت کے شعبے میں لانے کی کوشش کروں گی۔

اسی طرح خواتین دیگر شعبوں میں سب سے آگے نظر آتی ہیں جبکہ صحافت میں عدم دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں۔ حیدر آباد کے بھی کئی اضلاع ہیں جہاں پر پریس کلبز کے اندر خاتون صحافی ممبر کی تعداد صفر ہے۔ حکومتی اداروں کے ساتھ معاشرے کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو چاہئیے کہ ریاست کے چوتھے ستون صحافت کے پیشے میں عورتوں کو سہولیات فراہم کی جائیں تا کہ وہ اس شعبے میں شامل ہو کر خواتین کے مسائل کو اجاگر کر سکیں۔

مزیدخبریں