سڑک، شاہ نورانی سے خضدار جانے والی پتلی سی خاک آلود لکیر کو اگر سڑک کا نام دیا جائے، جو گرمی کی تپش سے جھلس رہی تھی، آمد و رفت، گاڑیوں اور راہ گیروں کا راستہ روکنے کیلئے بند کر دی گئی تھی۔ دور، جہاں جہاں تک نظر ارد گرد وحشت ناک ویرانگی کا تعاقب کرتی ہے، انسان یا آدم زاد دکھائی نہیں دیتا۔ قدم بہ قدم قائم فوجی چیک پوسٹوں پر بلوچی و براہوی زبان کی الف ب سے ناواقف اہلکاروں کو عام بلوچوں کے درمیان بلوچ لبریشن آرمی یعنی بی ایل اے کی تلاش ہے۔
بی ایل اے کو ڈھونڈ نکالنا روز بروز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی نے، بشیر زیب کی سربراہی میں، جو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے دو مرتبہ چیئرمین رہ چکے ہیں، چند سال میں خود کو شہری زندگی سے دور حاشیہ پر رہنے والی محدود عسکری تنظیم سے طلبہ تنظیم کی طرز پر فعال عوامی محاذ میں بدل ڈالا ہے؛ گھر گھر تک دست درازی، جبری انسانی گمشدگیوں، مسخ لاشوں کی برآمدگی نے طلبہ اور نوجوانوں کیلئے کریئر بنانے کا خیال، جو کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹیوں میں غالب تھا، جہاں سے وہ فارغ ہو کر ضلعی یا صوبائی بیورو کریسی کی سطح پر کوئی معمولی مقام حاصل کرتے اور باقی ساری عمر شرافت یا کرپشن کے ساتھ سرکاری نوکری میں گزارتے تھے، اب مستقبل بنانے کا وہ خواب ایک زود گزر یاد بن چکا ہے، اور کریئر بنانے کا مقام بدل چکا ہے۔ کندھے سے جھولتی ہوئی بیلٹ جس سے بندوق لٹکی ہوئی ہے، اس نے نوکری کی جگہ لے لی ہے۔ نظریات نے ان جوانوں کے کندھوں کو سبکدوش کر دیا ہے۔ فدائی بننا معمولی افسر بننے سے بڑا رجحان بن گیا ہے۔
یہ دسمبر کا مہینہ تھا اور تاریخ 25، سال 2018۔ کرسمس کا غیر معمولی دن۔ مسیحی دنیا میں لوگوں نے اپنے روزمرہ کے کام کاج نمٹا لیے ہیں۔ جھنجھٹوں سے آزاد کھانے پینے کی میز کے گرد بیٹھے ہیں، جس پر مغربی مسیحی رسم کے مطابق سرخ میز پوش پھیلا دیا گیا ہے، بچے اپنے والدین، خاندان کے بزرگوں، دادا، دادی، یا نانا نانی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ بچے گول مٹول، سفید ریش سانتا کلاز سے تحفے میں ملی چاکلیٹ پا کر خوش تھے۔ یہ امن کا دن کہلاتا ہے، تشدد سے پاک۔ اس دن کابل کے امریکی بیس پر، جنگ پر آئے سپاہی، جو ختم نہ ہونے والی جنگ اور گھر سے دوری پر خستہ تھے، اس دن کی آمد پر خوشی منا رہے تھے۔ ان کے ملٹری بیس سے 500 کلومیٹر دور، قندھار میں، جو افغانستان کا دوسرا بڑا شہر کہلاتا ہے، بلوچ لبریشن آرمی کا کمانڈر اسلم بلوچ اپنے گھر کے سامنے خودکش حملے میں 6 ساتھیوں سمیت مارا جاتا ہے۔ وہ، اسلم بلوچ اور اس کے ساتھی، کرسمس کی چھٹیاں منانے والے امریکی سپاہیوں کیلئے کتنی اہمیت رکھتے تھے؟ اس کا تعین کرنا محال ہے، بہرحال یہ بلوچ لبریشن آرمی کی قیادت کیلئے، زور دار زلزلہ کے نتیجے میں لگنے والے دھچکے سے کم نہیں تھا۔
اسلم بلوچ کو غفار لانگو، ماہ رنگ بلوچ کے والد، نے نواب خیر بخش مری کے سٹڈی سرکل، حق توار کا حصہ بنایا جو نواب مری نے 1990 کی دہائی کے شروع کے سالوں میں افغانستان سے واپسی پر قائم کیا تھا جہاں وہ مختلف موضوعات پر لیکچر دیتے تھے۔ یہ تین دوست اسلم بلوچ، غفار لانگو اور سرور عرف بابے، جو ارباب کرم خان روڈ پر واقع واپڈا کے دفتر میں ملازمت کرتے تھے، ان کا نظریاتی سرکل میں اپنا ایک چھوٹا گروپ تھا۔
"حق توار نے، کچھ عرصہ نظریاتی اور شعوری سرکلز کے بعد، کوئٹہ میں احتجاج کی کال دی۔ جس میں تنظیم کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پولیس ہڑتال سبوتاژ کرنے کیلئے خاص طور پر سرگرم رہی۔ اسلم بلوچ کا اس بھاگ دوڑ میں پولیس کی ایک چھوٹی سی نفری سے سامنا ہوتا ہے، جس کی قیادت ایس پی لیول کا افسر کر رہا ہوتا ہے، جس پر اسلم بلوچ براہ راست فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ایس پی بچ جاتے ہیں لیکن اسلم بلوچ کی بہادری، جرات، بے خوفی حیر بیار مری کو متاثر کرتی ہے"۔ حق توار کے لیکچرز میں شریک رہنے والے ایک کارکن نے بتایا۔
بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ نواب خیر بخش مری کی بلوچستان واپسی پر ڈھیر ہو چکی تھی۔ میر ہزار خان بجارانی اور شیر محمد مری نے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔ یہ آزادی کی دیرینہ خواہش کو سجانے والی تنظیم پر رات کے تاریک پہروں جیسا وقت تھا۔ جب ثانیہ ثانیہ لمحوں کا حساب رکھتے ہوئے، بے پناہ اندھیرا چھٹ جانے اور جما دینے والی سردی کے ختم ہونے اور صبح کی روشنی کا شدید بے چینی، بے بس کر دینے والی بے قراری سے انتظار کیا جاتا ہے۔ جو وقت بیتا تھا، وہ اپنے ساتھ ماضی کی رفاقتوں کا بہت بڑا حصہ ہمیشہ کیلئے ساتھ لے کر چلا تھا۔ دوستیاں اور دوست بدل چکے تھے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر نظریات کے خاتمہ کی فاتحہ پڑھی جا رہی تھی۔ حق توار، تاریکی کی دراڑوں، رخنوں کو بھرنے کی ایک سعی، اس تنظیمی ڈھانچے کو، جو عاقبت نااندیش فیصلوں اور وقت کی چیرہ دستیوں کے نتیجے میں تاریکی میں لپیٹ دی گئی تھی، اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کی ایک کوشش تھی۔
بلوچستان غرضیکہ نشیب و فراز سے پُر 1970 کی دہائی پار کر چکا تھا۔ ایک نئی نسل جوان ہو چکی تھی، جس نے اتھل پتھل کا وہ عرصہ نہیں دیکھا تھا، جب اس سرزمین کے شتر جیسے سخت کوش جسم کو، 20 سال قبل، گہرے زخم سہنے پڑے تھے لیکن حالات، زندگی کے ہر شعبہ میں، 1990 کی دہائی میں 1970 سے بھی بدتر ہو چکے تھے۔ حق توار کی نظریاتی کلاسوں نے، ان بیزار کن حالات میں، مختصر وقت میں کامیابی کے ساتھ ایک جماعت یا ہراول دستہ تیار کر لیا، جو پرامن ذرائع، انتخابات اور پارلیمان، سے تبدیلی لانے پر مزید یقین نہیں رکھنا چاہتا تھا، جو طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی ذلت برداشت کرنے سے انکاری تھا، جس نے سیاست کو مافیائی جامہ پہنتے دیکھا تھا۔ ہراول دستہ یا پیش رو جماعت جب تیار تھی، 1996 میں نوابزادہ حیر بیار مری کی تجویز پر بلوچ لبریشن آرمی کی بنیاد رکھی گئی، جس میں حق توار کے سٹڈی سرکل کی اکثریت شامل ہوئی۔ ان سرکردہ افراد میں اسلم بلوچ بھی شامل تھا۔
بشیر زیب 2006 میں، 10 سال بعد، جب وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین تھے، بی ایل اے کا غیر اعلانیہ حصہ بنے۔ " اسلم بلوچ کتاب پڑھنے کا زیادہ شوقین نہیں تھا، البتہ ہر معاملے کو سنجیدگی سے دیکھتا تھا"۔ ان کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دینے والے ایک دوست نے بتایا۔ نوابزادہ حیر بیار مری کی قیادت میں وہ 2017 تک بی ایل اے کا حصہ رہتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کو سیاسی (عسکری نہیں) رہنمائی فراہم کرنے کیلئے کوئی جماعت موجود نہیں تھی۔ جماعتیں و تنظیمیں، کسی بھی اور ادارے کی طرح، قاعدہ و قانون کی پابندی سے، جو جماعت کا 'سمجھ دار' حلقہ وضع کرتا ہے، اپنا ہدف حاصل کرنے کیلئے توازن برقرار رکھتی ہیں۔ مزاحمت، کم یا بیش، اپنی سیاسی طاقت رکھتی ہے، جنہیں تنہائی کا شکار بننے، بند گلی تک پہنچنے، اپنا راستہ کھونے سے قبل عوامی قوت کو اپنی صفوں میں برقرار رکھنے کی حاجت رہتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعت کر سکتی ہے جو بی ایل اے کی رہنمائی کیلئے موجود نہیں تھی۔
نوابزادہ حیر بیار مری کا بلوچ مزاحمتوں کے پرانے اصول، رہنما کا ہر ایک سے ذاتی تعلق، پر یقین تھا، جہاں قائد حتمی فیصلوں کیلئے آزاد، سارے لشکر کا قسمت ساز اور راہ نُما ہوتا آیا ہے۔ یہ اصول نئی سیاسی مزاحمت کیلئے کارآمد نہیں تھا، ادھر یہی اصول سیاسی جماعت کی کمی بھی پُر کرتا تھا، یہی اصول تھا کہ وہ وفادار جنگوؤں کی تنظیم ' بی ایل اے' کے رہبر کے طور پر، مزاحمتی جنگ کی میراث کا تنہا رہنما بن چکا تھا؛ بولان، قلات، مکران و دیگر علاقوں میں قائم فوجی کیمپوں کا سربراہ۔ اسلم بلوچ، اپنے ساتھیوں سمیت میدان جنگ و مرگ کی قیادت اور کمانداروں کے ساتھ مشغول تھا۔ سربراہ کا کماندار سے، سپاہی سے، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں سے براہ راست رابطہ رہتا تھا، جس میں، سربراہ کے سوا، ہر ایک بے اختیار ہوتا ہے۔ وہ، سپاہی یا کماندار، معین سیاسی و تنظیمی راہ نما قانون و قاعدہ نہ پا کر لاچار ہوتا ہے اور ہر معاملہ میں رہنمائی حاصل کرنے کیلئے سربراہ سے جا کر جڑتا ہے، بالآخر یہ ذاتی تعلق یا اصول، رشتہ یا سلسلہ غیر مؤثر، غیر تنظیمی اور ناکارہ ثابت ہوا۔
2014 تک، مزاحمت کے چودھویں سال خزاں کا نرم گرم مزاج لیے سورج جب طلوع ہوا تو درختوں کے پتوں کے جھڑنے کی چرچراہٹوں کے ساتھ کیمپوں میں اختلافات کی بھی ناراض آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ نئی جنگ یا نئی مزاحمت جو قبائلی و خونی رشتوں کی بنیاد پر نہیں لڑی جا رہی تھی، جب یہ پھیلنے لگی، پرانی تنظیم کے اصولوں کی بنیاد پر کھڑا ڈھانچہ کمزور پڑتا گیا۔ یہ رشتہ ماضی - جس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا- کے ناکام تجربے کی تکرار تھا جو 1970 اور 1980 کی دہائی کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ بی ایل اے میں ناسازگار وقت اور نامواقف معاملات پر پیدا ہونے والے اختلافات سے دراڑیں پڑتی گئیں۔ سال 2016 تک اختلافات کا انبار لگ چکا تھا۔ دونوں جانب پڑی گرہیں جن کو کھولنا مشکل تھا، کاٹنا آسان۔ اسلم بلوچ جو قلبی امراض کا شکار تھا، سبی میں ایک کارروائی کے دوران شدید زخمی ہوتا ہے۔ علاج کی فوری ضرورت ('بِلا ناغہ علاج' اسلم بلوچ کے الفاظ) کے تحت وہ سربراہ کی رضامندی کے بغیر پڑوسی ملک چلے جاتے ہیں۔ جو ان کے اور حیر بیار مری کے درمیان کربناک بحران اور تنظیمی رشتے کا آخری دن ثابت ہوتا ہے۔ یہ 2017 کا سال تھا اور ماہ دسمبر۔
بی ایل اے کا نیا چیپٹر 2018 میں کھُلتا ہے۔ ایک نئی تصویر سامنے آتی ہے جس میں حیر بیار مری اور اسلم بلوچ ایک نقطے سے، دو مختلف راستوں پر چلتے نظر آتے ہیں، ایک دوسرے کی طرف پشت کیے، فاصلہ بڑھاتے ہوئے۔ جو اس تنظیم میں، سربراہ سے سپاہی تک، کنٹرول سے کمانڈ تک، کمک کاروں سے رابطہ کاروں تک، بنیادی تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ کیمپوں میں نئی وفاداریاں جنم لیتی ہیں۔ نظریاتی کرب جب سکون کی کروٹیں لیتا ہے تو بڑا دھڑا اسلم بلوچ کی قیادت میں آ چکا تھا۔ یہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے طویل تنظیمی رشتوں کا خاتمہ تھا۔ اسلم بلوچ کو قیادت کیلئے ایک سال کا عرصہ ملتا ہے۔ چیلنجوں سے نمٹنا، تنظیم کا مورال بلند کرنا، بی ایل اے کی روایتی کارروائیوں، فوجی کانواؤں پر چھوٹے حملوں، گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑانے کی روایت جو کئی سالوں سے گوریلا حکمت عملی کا اہم حصہ بنی رہی، وہ خودکش حملوں سے بدل دی گئی۔ کراچی میں 6 سال قبل چینی قونصل خانہ پر 23 نومبر 2018 کو حملہ ان کی آخری کارروائی تھی۔ اس حملے کے ایک ماہ دو دن بعد قندھار میں 25 دسمبر کے دن ان کو خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
نوابزادہ حیر بیار مری سے علیحدگی کے ایک سال بعد اس نے مزاحمت سے ہمیشہ کیلئے رخصت لے لی۔ اسلم بلوچ کو قیادت کیلئے زیادہ مہلت نہیں ملی۔ جتنا وقت ملا، اس کا بیشتر حصہ تنظیم کے اندر اور باہر رشتوں کو ازسرنو بحال کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ ہنوز یہ مسلح تنظیم ابھی اپنی پرانی شکل میں تھی جس کو اُن کے بعد بشیر زیب محفوظ پناہ گاہوں، خفیہ گوشوں، شہری زندگی سے دور، حاشیہ سے باہر نکال لائے۔
13 سال قبل 2011 میں ' بشیر زیب سے وقت لے لو، اس کا انٹرویو کرتا ہوں'، ایک دوست سے، جو بعدازاں جرمنی منتقل ہوا، میں نے کہا۔ ماہ و دن، اتنا عرصہ گزرا اور واقعات یک بہ یک، وقفہ لیے بغیر حادثات بن کر متواتر پیش آئے کہ اس دن کی تاریخ کو اب کیلنڈر پر یادگاری دائرے میں قید کرنا آسان نہیں۔ بہت ساری، ڈھیر یادداشتیں تاریکی اور فراموشی کے مقام پر منتقل ہو گئی ہیں۔ وہ دوست ان دنوں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سینٹرل کمیٹی کا رکن اور پروفیشنل قوم پرست کارکن تھا۔ 'کماش ( بشیر زیب) سے پوچھ کر بتاتا ہوں'، جواب دیتے ہوئے اس کے چہرے پر دلی اطمینان اور خوشگوار تاثر ابھرا۔ 'کماش' یعنی بزرگ، بڑا، قابل احترام کا لفظ، زور دے کر، بے پایاں احترام سے، اس نے ادا کیا تھا۔
بشیر زیب، بی ایس او آزاد کو، ایک سرگرم طلبہ تنظیم کو، 2006 سے 2011 کے دوران پانچ سال تک کبھی پس منظر سے، کبھی منظر عام پر آ کر، چیئرمین رہ کر چلاتے رہے۔ جب 6 سال قبل بی ایل اے کے سربراہ بنے، ان کو ان کے پس منظر کا وہ طولانی طالب علمانہ تجربہ کام آیا جو نوجوانوں سے براہ راست ان کو جوڑتا تھا۔ بلوچ نوجوانوں کا وہ دور افتادہ غصہ جو ہلکی آنچ پر پکتا آ رہا تھا، وہ اس سے واقف تھا۔ وہ 6 سال میں بلوچستان کو سیاہ و سفید بنا کر پیش کرنے والے پاکستانی میڈیا کے پرائم ٹائم کا موضوع بن چکا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے اداروں کی خبروں، تصویروں اور تجزیوں سے بلوچ کا سیاہ و سفید کے سوا اور کسی رنگ میں عکس پانا محال ہے۔ یہ باخبر میڈیا، اس دن سمیعہ، شاری اور ماہل بلوچ جب فدائی بنیں، 'معصومیت' سے، 'وہاں کیا ہوا؟' پوچھتا ہوا، حیران تھا۔
بشیر زیب نے جب بی ایل اے کی قیادت سنبھال لی، اس نے بلوچ عسکری تنظیم کو اسلم بلوچ کے خود کش حملوں کی میراث سمیت محفوظ گوشوں سے نکال کر عوامی محاذ کی طرح جس کی شاخیں دور محلوں، دراز گلیوں میں پھیلی ہوتی ہیں، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی شکل دے دی۔ بے آب و گیاہ زمین پر اگنے والے درخت کے مانند جس کی پانی سے سیراب ہونے والی جڑیں زیر زمین پیاس بجھا رہی ہوتی ہیں اور سطح زمین پر آنکھ بہت کچھ نہیں دیکھ پاتی؛ بی ایل اے بی ایس او بن چکی ہے۔ جنگجو عوام کے درمیان موجود ہے۔ روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول، عوام کے بہاؤ کا حصہ بن کر نظروں سے اوجھل ہے۔
اس وقت کا خاتمہ ہو چکا ہے جب گوریلا سیٹلائٹ فون پر دلہا سے شکایت کرتا تھا کہ میری پلیٹ میں چھوٹی بوٹی کیوں ڈالی ہے؟