’ہتکِ عزت پر میڈیا ٹرائبیونل بنا رہے ہیں تو 35 پنکچر کیس میں پیش کیوں نہیں ہو جاتے؟‘

05:14 PM, 26 Sep, 2019

حسان عبداللّٰہ

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے ذرائع ابلاغ سے متعلق مقدمات کو سننے کے لئے میڈیا کورٹس کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔


چند روز قبل فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا عدالتوں کا مقصد میڈیا انڈسٹری کے تنازعات کو ان خصوصی عدالتوں کے ذریعے جلد حل کرنا ہے۔ ’’جب حکومت یا پیمرا ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز کے خلاف کوئی ایکشن لیتی ہے تو وہ عدالت چلے جاتے ہیں اور پھر سالہا سال مقدمات چلتے ہیں۔ اس لئے حکومت پیمرا کے ساتھ مل کر میڈیا کورٹس بنانے جا رہی ہے‘‘۔

نیا دور نے میڈیا ٹرائبیونلز کے قیام کے حوالے سے وفاقی وزیر فواد چودھری اور سینیئر صحافیوں سے رابطہ کیا تاکہ اس معاملے میں حکومتی مؤقف اور متوقع خدشات پر روشنی ڈالی جا سکے۔

’میڈیا ٹرائیبونلز کے قیام کا فیصلہ کابینہ نے عجلت میں کیا‘

اینکر پرسن عنبر رحیم شمسی نے نیا دور کو دیے گئے ویڈیو انٹرویو میں میڈیا ٹرائیبونلز کے قیام حوالے سے رائے دی تھی کہ میڈیا ٹرائیبونلز کے قیام کا فیصلہ کابینہ نے عجلت میں کیا، جس سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک سال سے میڈیا کو دباؤ کا سامنا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ یہ بھی میڈیا کو دباؤ میں لانے کی ایک نئی کوشش ہو۔

ـ

میڈیا ٹرائبیونلز کے قیام کا مقصد ورکر صحافیوں کو دباؤ میں لانا ہرگز نہیں‘

میڈیا ٹرائبیونلز کے قیام کے حوالے سے جب نیا دور نے وفاقی وزیر فواد چودھری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میڈیا ٹرائبیونلز کے قیام کا مقصد ورکر صحافیوں کو دباؤ میں لانا ہرگز نہیں ہے، البتہ ان عدالتوں کے ذریعے شخصیات کے خلاف میڈیا پر مسلسل ہونے والے پراپیگنڈے کے خلاف شکایت ہو سکے گی، جبکہ بلا ثبوت الزامات لگانے کے عمل کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ عنبر شمسی کے اس مؤقف کہ میڈیا سے متعلق شکایات کے ازالے کے لئے حکومت کو پیمرا اور پریس کونسل جیسے اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے، پر فواد کا کہنا تھا کہ عنبر جوڈیشیل باڈی اور ایگزیکیٹو میں فرق نہیں کر پا رہیں۔ دراصل پیمرا اور پریس کونسل ایگزیکٹو ادارے ہیں، عدالتی نہیں‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا ٹرائبیونلز مکمل طور پر حکومتی اثر سے ماورا ہوں گے اور یہ یقینی طور پر ایک جوڈیشیل فورم ہو گا جہاں ورکر صحافیوں کی میڈیا مالکان کے خلاف شکایات کا بھی ازالہ ممکن ہو سکے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ٹرائبیونلز ورکر صحافیوں کے لئے ایک بہترین فورم ثابت ہوں گے۔



جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ میڈیا ٹرائبیونلز کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان کا میڈیا جس سمت بڑھ رہا ہے ایسے میں ہتک عزت کے قوانین اور صحافیوں کے حقوق کے لئے کسی آزاد اور خود مختار ٹرائبیونلز کی ضرورت تھی۔ ہتک عزت کے قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب معاملہ بہت سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ’کوئی تو ایسا فورم ہو جہاں پر بے بنیاد الزامات کے بارے میں شکایت درج کرائی جا سکے‘۔

فواد چودھری کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب ان کے پاس وزارتِ اطلاعات کا قلمدان موجود تھا تب بھی صحافیوں کے حقوق کے لئے میڈیا ٹرائبیونلز کے قیام کی ضرورت محسوس کی تھی۔

’کیا حکومت نے میڈیا سے متعلق شکایات کے لئے پیمرا سے رجوع کیا ہے؟‘

معاملے پر دنیا نیوز سے منسلک صحافی اور سینئر اینکرپرسن حبیب اکرم ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کا کام کرنے کے لئے حکومت کے پاس اخلاقی اتھارٹی ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں حکومت اپنے آپ کو پہلے ہی متاثرہ فریق کے طور پر پیش کر رہی ہے تو جب حکومت خود ایک پارٹی بن کر سامنے آ چکی ہو اور خود ہی میڈیا ٹرائبیونلز کے قیام کی بات کرے، تو ہم اسے بدنیتی پر محمول کیسے نہ کریں؟ کیا حکومت چاہتی ہے کہ اس کے حکم پر بنائے جانے والے میڈیا ٹرابیئونلز، جن کا مقصد پہلے ہی بتا دیا گیا ہو کہ حکومتی وزرا کے تحفظات کے باعث بنائے جا رہے ہیں، میں صحافیوں کو احتساب کے لئے کھڑا کر دیا جائے؟

انہوں نے کہا کہ یہ ایک نئی طرح کی سینسرشپ ہے تاکہ میڈیا سے منسلک افراد کو مقدمات میں گھسیٹا جا سکے۔ ’’اگر میڈیا کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہے تو کیا حکومت نے کبھی  پیمرا میں اس کی شکایت کی ہے؟‘‘

حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ قوانین تو پہلے سے ہی موجود ہیں، جن کی بنیاد پر شکایت کا ازالہ ہو سکتا ہے تو ایسے میں میڈیا ٹرائبیونلز کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟

جب ان سے پوچھا گیا کہ ذاتی زندگی کے حوالے سے گفتگو کیے جانے پر کیا صحافیوں کے خلاف مقدمات نہیں بننے چاہئیں، تو حبیب اکرم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں ایک بےبنیاد خبر دوں کہ وزیر اعظم نے تیسری شادی کر لی ہے تو یقیناً ان کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور انہیں حق ہے کہ مجھے عدالت میں لے جائیں۔ تاہم اگر میں کہوں کہ انہوں نے تین شادیاں کیں، وہ گھر نہیں چلا سکتے تو حکومت کیا چلائیں گے؟ تو میں حق بجانب ہوں کہ معاملے پر اندازے کے مطابق یہ رائے دوں۔ کوئی صحافتی ضابطہ مجھے اس رائے کے اظہار سے نہیں روکتا‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی اور سیاستدان میں فرق ہوتا ہے، جبکہ صحافیوں کا کام خبر دینا ہوتا ہے۔ کیا ہم سندھ اور پنجاب میں مرنے والے بچوں کی خبر اس لئے نہ دیں کہ ان خبروں کے میڈیا میں آنے پر دو وزرائے اعلیٰ کی بدنامی کا احتمال ہے؟



یہ بھی پڑھیے: تحریک انصاف کے خلاف بیرونی فنڈنگ کیس سے متعلق تمام حقائق







حبیب اکرم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہتکِ عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو کیا نجم سیٹھی یا شہباز شریف پر عمران خان کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات ہتک عزت کا معاملہ نہیں تھا؟

’’عمران خان نے نجم سیٹھی پر 35 پنکچر کا الزام نہ صرف لگایا بلکہ پورا سال لگاتار دہرایا۔ یہاں تک کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر روزانہ یہ الزام دہرایا جاتا تھا۔ بعد میں انہوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ دیا کہ یہ ایک سیاسی بیان تھا۔ نجم سیٹھی کی جانب سے ان پر ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کیا گیا۔ عمران خان جواب کیوں داخل نہیں کرواتے؟ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف نے انہیں دھرنا نہ دینے کے لئے 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی۔ اس پر خان صاحب جواب تک داخل نہیں کرواتے۔ جب کہ اپنی عزتوں کے لئے علیحدہ عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ یہ صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، اور جب بھی حکومتیں صحافیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ یہی جواز پیش کرتی ہیں کہ ہم تو ہتکِ عزت کے قوانین کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ ایسا میڈیا کی اپنی ساکھ کے لئے ضروری ہے۔ ’’ہماری ساکھ کا معاملہ تو یوں ہے کہ جھوٹی خبروں کے ساتھ صحافی میڈیا میں نہیں رہ سکتے۔ اگر میں روز آ کر جھوٹی خبر دوں گا تو کتنے دن میرا ادارہ مجھے نوکری پر رکھے گا؟‘‘

ذرائع ابلاغ پر دباؤ کی مختلف شکلیں سامنے آ رہی ہیں‘

سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی کا اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جیسے جیسے پی ٹی آئی حکومت کی اخلاقی اور سیاسی تنزلی عیاں ہو رہی ہے، حکومت کی طرف سے ذرائع ابلاغ پر دباؤ کی مختلف شکلیں سامنے آ رہی ہیں۔



یہ بھی پڑھیے: دنیا میڈیا گروپ نے سینکڑوں ملازمین کو برطرف کر دیا







’’بات صرف میڈیا عدالتوں کی نہیں ہے۔ اب حکومت کے مختلف اہلکار میڈیا ارکان کے خلاف ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ فواد چودھری کا سمیع ابراہیم پر تشدد، نعیم الحق کی ٹوئٹر پر ہارون رشید اور عارف حمید بھٹی کو گالم گلوچ اور اب پی ٹی آئی کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے غریدہ فاروقی، خرم حسین سمیت کئی صحافیوں کے خلاف ٹوئیٹ، عرفان صدیقی کی گرفتاری، ملک میں آزادی اظہار کو دبانے کا حصہ ہیں‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اطلاعات کا یہ کہنا کہ خصوصی عدالتیں اس لئے بنا رہے ہیں کہ موجودہ عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا حکومت کی طرف سے ناکامی کا اعتراف ہے۔

’’حکومت کو چاہیے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کو بہتر بنائے اور عدالتی نظام میں اصلاحات کرے۔ایسے وقت جب موجودہ ٹی وی چینل معاشی بدحالی کا شکار ہیں، ہزاروں کارکنان کو بیروزگار کیا گیا ہے، موجودہ حکومت نے کئی درجن نئے چینل کھولنے کے لائسنس بیچے ہیں۔ اگر مارکیٹ میں دم نہیں ہے تو پھر یہ کام کیوں کیا جا رہا ہے؟ اب تک حکومت نے کتنے ٹی وی چینل اور اخباری مالکان کے خلاف کارکنوں کی جبری بیروزگاری اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کوئی ایکشن لیا ہے؟‘‘



اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صحافی جہاں معاشی مشکلات کا شکار ہیں وہیں انہیں بعض ریاستی عناصر کی جانب سے مسلسل پابندیوں اور سینسرشپ کا بھی سامنا ہے۔ اکثر صحافی حکومت کی جانب سے قومی سلامتی اور مفادات کے نام پر غیر اعلانیہ سینسرشپ کی برملا شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، دوسری جانب ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا نے اپنے مینڈیٹ سےتجاوز کیا۔ صحافیوں سمیت میڈیا مالکان کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔
مزیدخبریں