پیر کو ہونے والی سماعت میں بیرسٹر حسنات گل کے ذریعے دائر کی گئی ضمانت کی درخواست میں ثمینہ شاہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ کئی سالوں سے اسی فارم ہاؤس پہ رہ رہی ہیں جہاں سارہ کو قتل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بیان دیا کہ کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے قتل سے قبل انہیں وٹس ایپ پر میسج بھیجا تھا کہ سارہ انعام کی باقاعدہ رخصتی کا انتظام کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہنواز امیر نے قتل کے بعد 9 بج کر 12 منٹ پر بذریعہ فون انہیں وقوعہ سے متعلق آگاہ کیا۔ اس پر نامزد ملزمہ دوڑ کر شاہنواز کے کمرے کی طرف گئیں مگر تب تک سارہ انعام کو قتل کیا جا چکا تھا۔
انہوں نے درخواست میں مزید کہا کہ اس کے بعد انہوں نے شاہنواز امیر کو کمرے ہی میں بیٹھے رہنے کو کہا۔ تب تک شاہنواز امیر کے والد اور معروف صحافی ایاز امیر نے پولیس کو اس واقعے سے آگاہ کر دیا تھا۔ جس کے بعد اسلام آباد پولیس چند منٹوں میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ واقعے کی چشم دید گواہ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ مؤقف بھی اپنایا کہ وہ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں لہٰذا ان کی ضمانت قبل از وقت گرفتاری منظور کی جائے۔
عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں تین دن میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کر دی۔
یاد رہے کہ جمعہ کو معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر نے مبینہ طور پر اپنی بیوی سارہ انعام کو چک شہزاد میں قتل کر دیا تھا۔ شاہنواز پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ مقتولہ سارہ انعام کے چچا چچی نے ثمینہ شاہ کو اس مقدمے میں نامزد کیا ہے۔