خاص طور پر شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی جیسے وہ مخالف سیاسی رہنماء جو ان (وزیراعظم) کی جگہ لینے یعنی وزیر اعظم عمران خان کو پرائم منسٹر ہاؤس سے بے دخل کروا کے کسی نئے بند و بست کی سازشوں میں مصروف ہیں تاکہ " پنڈی والوں " یا اہم شخصیات کے ساتھ ان کی مبینہ ملاقاتوں یا بالواسطہ خفیہ رابطوں کا سلسلہ روکا جاسکے۔ سو اب واضح ہے کہ حکومت نیب قانون میں ترمیم سے پہلے مخالف سیاست دانوں کو ایک بار پھر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتی ہے جس سے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف ، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کی دوبارہ گرفتاری کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مقتدر حلقے اگرچہ حکومت کو نیب کے قانون میں نرمی اور اس مقصد کے لئے اپوزیشن سمیت دیگر سیاسی قوتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ قانون سازی تجویز کر رہے ہیں تاہم وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ماسوائے شہبازشریف کے باقی اپوزیشن رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جائے اور اگر منقسم نون لیگ کا دوسرا دھڑا اس سے پہلے پہلے شہبازشریف کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو نیا اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کا صدر بنوانے میں کامیاب ہو جائے تو بہتر ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے قانون میں سیاسی اتفاق رائے سے ترمیم کے لئے درکار قانون سازی کا پراسیس پورا ہونے میں چونکہ کچھ وقت لگے گا کہ ترمیمی قانون کا مسودہ ایوان میں پیش کر دیئے جانے کے بعد پہلے قائمہ کمیٹی میں بحث کے لئے بھیجا جائے گا جس کے بعد ایوان میں بحث مباحثے اور حتمی منظوری کے لئے پیش ہوگا لہٰذا اس عرصے میں ترمیمی آرڈیننس سے toothless یعنی غیر سخت اور بے ضرر ہوجانے والا نیب قانون چیئرمین نیب کے لامحدود اختیارات کے ساتھ اپنی پرانی سخت حالت میں بحال رہے گا۔ اس لئے ضدی کپتان اس phase سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر کڑی تنقید کرنے والے مخالف سیاست دانوں کو ایک بار پھر سے dose دینا چاہتے ہیں .