یوٹیوب کی آمد، اور صحافیوں کے روپ میں ’کن ٹٹے‘

08:41 PM, 27 Apr, 2020

ارشد سلہری
پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت میں میڈیا کا پھیلاؤ شروع ہوا تو کئی چینل آئے۔ چینلوں میں فوری طور پر پرنٹ میڈیا کے لوگوں کی کھپت ہوئی جب کہ یونیورسٹیوں سے بھی نوجوانوں نے میڈیا کی جانب رخ کیا۔ مارکیٹ کی مناسبت سے تعلیمی اداروں نے میڈیا سائنسز کے پروگرام متعارف کرائے، یعنی میڈیا میں پڑھے لکھے نوجوان وارد ہوئے۔ بلاشبہ میڈیا نے ترقی کی اور قابل اور ذہین نوجوانوں کو میڈیا نے سٹار بنا دیا۔ دیکھا دیکھی کئی ایسے لوگ بھی میڈیا کے میدان میں در آئے جنہوں نے اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا کو محض ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طرح ڈالی اور صحافتی پیشے کو بے توقیر کر دیا۔

حد تو یہ ہے کہ چور اچکوں، رسہ گیروں، قبضہ مافیا تک نے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز بنا لیے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے زمرے کی بجائے کالا دھن سفید کرنے کی کوشش ہے۔ رسہ گیر، قبضہ مافیا اور چور اچکے سرمایہ کاری کی نیت سے میڈیا میں آتے بھی نہیں ہیں بلکہ اپنے کالے کرتوتوں کو تحفظ اور مزید دھونس و دھاندلی کی غرض سے آتے ہیں۔

ایسے اخبارات اور چینلز پر مالکان کی سوچ اور خواہش کے مطابق خبر دی جاتی ہے۔ بھرتی کردہ صحافی اور میڈیا کارکن پتلی کی طرح مالکان کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پروگراموں میں اپنے مالکان کے لہجے میں ہی بات کی جاتی ہے۔ یہ کام کرنے والے حقیقت میں صحافی نہیں ہوتے۔ صحافی کا روپ دھارے ہوتے ہیں۔ تعلیم، اخلاقیات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ چرب زبانی، نوسر بازی ہی ان کی قابلیت ہوتی ہے۔ میڈیا ان کا پیشہ ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ان کا کوئی بھی پیشہ نہیں ہوتا ۔ یہ کئی کام بیک وقت کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو آپ آسانی سے میڈیا کی کالی بھیڑیں کہہ سکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل صحافی معاوضے کی لالچ میں ایسے اخبارات اور چینلز میں نہیں جاتے۔ اگر جاتے بھی ہیں تو اپنی شرائط پر جاتے ہیں۔ مگر چینلز یا اخبار کے نان پروفیشنل ماحول کو دیکھ کر جلد واپسی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔

عمران خان حکومت میں میڈیا بحران سے دوچار ہے۔ بےروزگار صحافیوں نے شوشل میڈیا کا سہارا لیا اور یوٹیوب چینلز بنا کر سکرین پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ قبل ازیں یوٹیوب چینلز پیشہ وارانہ طریقے سے چلائے جا رہے تھے۔ مگر اب کچھ ایسے لوگوں نے یوٹیوب چینلز بنا لیے ہیں جنہیں ضرورت تو قطعی نہیں ہے محض گند اچھالنے کے لئے جو مین سٹریم کسی چینل پر نہیں اچھال سکتے تھے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ یوٹیوب چینل بنا کر کیمرہ اور مائیک اٹھائے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جنہیں صحافت کی الف ب بھی نہیں آتی، وہ خود کو ورکنگ جرنلسٹ کہلانے پر بضد ہیں جب کہ اپنی دکان چلانے والے عامل صحافی کیسے کہلا سکتے ہیں۔

جگہ جگہ سے مار کھاتے ہیں۔ لوگ کپڑے تک پھاڑ دیتے ہیں۔ کہیں پولیس موقع پر پہنچ جاتی ہے اور جعلی صحافی قرار پاتے ہیں۔ خود تو بے عزت ہوتے ہیں مگر ساتھ صحافتی پیشہ بھی بدنام کر رہے ہیں۔

وزارت اطلاعات ونشریات سمیت دیگر صحافتی اداروں، پریس کلبوں، صحافیوں کی یونینز کوصحافتی پیشہ کے وقار کے لئے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ اگر کن ٹٹے صحافی بنتے ہیں تو انہیں صحافتی اخلاقیات بھی سکھائی جائیں۔ اصول تو یہ ہے کہ کن ٹٹے صحافی نہیں ہوتے اور صحافی کن ٹٹے نہیں ہوتے۔

یہ بات حقیقت ہے کہ کسی صحافی کے منہ پرتھپڑ پوری صحافت کے منہ پر تھپڑ ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جو صحافی ہیں وہ تھپڑ نہیں کھاتے۔ صحافی جیل جاتے ہیں۔ کوڑے کھاتے ہیں اور سرخرو ہو کر سربلند ہوتے ہیں۔ ہماری صحافتی تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔
مزیدخبریں