مولانا صاحب کے لئے ممکن ہو تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنا دل مزید بڑا کرتے ہوئے ان لوگوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر ان کی زد میں آ کر رگڑا کھا گئے ہیں۔ ان کو سب سے پہلے تو فرداً فرداً ان حقیقی ایمانداروں اور دیانت داروں سے معافی تلافی کے لئے رجوع کرنا چاہیے، جن بیچاروں کی اس اچھی عادت کا سہرا ایک ایسے حاکم کے سر پر باندھنے کی کوشش کی گئی جو ’دولہا‘ بننے کا نہ تو متمنی تھا اور نہ ہی مستحق۔ اب ایماندار لوگ سرعام نکلتے ہوئے صرف اس لئے ہچکچاتے ہیں، کہیں انہیں مولانا صاحب کے دریافت کردہ ایمانداروں کی ہی مشاہبت نہ مل جائے۔
ویسے تو ایسے لوگوں کو اتنی بڑی آبادی میں ڈھونڈ نکالنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے، تو کیوں نہ مولانا صاحب کام کو آسان کرتے ہوئے ایک ساتھ ہی ان 22 کروڑ عوام کی دل آزاری کا مداوا کرنے کی کوشش کریں جن پر انہوں نے جھوٹا ہونے کی تہمت لگا کر سرعام رسوا کیا۔ مانا کہ یہ 22 کے 22 کروڑ برحق نہیں ہو سکتے، لیکن جن دو افراد کو آپ نے ایک ٹاک شو میں سچ کا پیکر ثابت کیا، اگر وہ سچے ہونے کے اصول و ضوابط پر پورا اترتے ہیں تو ان 22 کروڑ افراد کے گرد جھوٹے ہونے کا دائرہ تنگ کرنا بلاشبہ زیادتی ہے۔
ان 22 کروڑ افراد کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد ان میں ہی شامل 10 کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار 322 مرد آپ کی ایک اور معافی کے مستحق ہیں کیونکہ آپ نے خواتین کے لباس میں ویکسین ایجاد کر کے ان کی مردانگی کو بھرے بازار میں للکارا ہے۔ مرد حضرات مایوس ہیں کہ آپ کے اندر کا چھپا رستم تو حقوقِ نسواں کا چیمین نکلا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ مردوں کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے عذاب کا راستہ مردوں کی بے حیائی سے نکالتے؟ مردوں کی حق تلافی بھی نہ ہوتی اور خواتین کا ستر بھی آپ کے لعاب کے اصراف سے بچ جاتا۔
مولانا صاحب آخر میں امت مسلمہ اپنی آخرت کو پرآسائش رکھنے کے لئے آپ کو خدا کا واسطے دیتے ہوئے ان سو جوڑوں میں نظر آنے والی حوروں کے سامنے بھی سرنڈر کرنے کی درخواست کرتی ہے۔
مولانا صاحب اب قوم کی دنیا اور آخرت کے احوال آپ کے مزید کچھ سرنڈرز میں ہی مرکوز ہیں۔