لاہور کی سیشن کورٹ میں ریاست مخالف بیان دینے کے مقدمے میں ایڈیشنل سیشن جج واجد منہاس نے جاوید لطیف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جاوید لطیف کے وکیل فرہاد علی شاہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جاوید لطیف کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جاوید لطیف کا تعلق (ن) لیگ اور اپوزیشن جماعت سے ہے، پولیس نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے بدنیتی کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا ہے۔
جاوید لطیف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر پورا کلپ سنے بغیر ان پر مقدمہ بنا دیا گیا، سوشل میڈیا پر تو علما کے خلاف بھی فتوے آرہے ہوتے ہیں، جاوید لطیف ایک رکن قومی اسمبلی اور عوامی نمائندے ہیں نہ ہی وہ بھاگے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس عدالت کے سامنے سرنڈر کیا۔
اپوزیشن رہنماء جاوید لطیف کے وکیل فرہاد علی شاہ نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو قتل کرنے کے لیے ایک سازش تیار کی گئی، مریم نواز کے تناظر میں جاوید لطیف نے یہ بات کی، یہ ایک تفتیش کا کیس ہے اینکر کے ساتھ جاوید لطیف کا آمنا سامنا کرانا ہے، سی آئی اے لاہور اس کیس کو دیکھ رہی ہے یہاں کسی دہشت گرد کی ضمانت کی درخواست نہیں لگی جبکہ پولیس کے پاس تو ان معاملات پر ایف آئی ار درج کرانے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ جاوید لطیف نے مریم نواز پر حملے کی صورت میں کارروائی کا کہا تو یہ کوئی غلط بات تو نہیں، کیس کی تفتیش میں کھل کے بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، تفتیشی افسر نے تو گناہ گار قرار دے دیا، جائیں پھر جاوید لطیف کو یہ پھانسی لگا دیں، کیس میں نہ ٹرائل کیا گیا نہ ضمانت دی گئی، پولیس نے تو اپنے طور پر فیصلہ سنا دیا ہے لیکن یہاں پولیس کی خواہش کے مطابق نہیں قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ جاوید لطیف کے کیس میں ایک سیکشن کے علاوہ باقی تمام قابل ضمانت سیکشن ہیں۔
فرہاد علی شاہ نے عدالت سے استدعا کی کہ جاوید لطیف تفتیش میں شامل ہوں گے مگر ان کی ضمانت منظور کی جائے، پولیس کا کنڈکٹ انتہائی شرمناک ہے، انسداد دہشت گردی عدالت میں بھی (ن) لیگ کے رہنماؤں کی کی ضمانت سے قبل ڈرامہ رچایا گیا، عدالت میں اس وقت بھی سی آئی اے کے لوگ کھڑے ہیں۔
اس موقع پر جج نے کمرہ عدالت میں سول کپڑوں میں موجود لوگوں کی شناخت پوچھی۔
ایک افسر نے بتایا کہ میں ڈی ایس پی سی آئی اے ہوں باقی انسپکٹر ہیں۔
اس پر جج نے سوال کیا کہ آپ کو تو عدالت نے بلایا ہی نہیں آپ کیوں آئے ہیں۔
ڈی ایس پی سی آئی اے نے بتایا کہ تفتیش کے سلسلے میں عدالت میں آئے ہیں۔
جاوید لطیف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوشن نے دلائل دیتے ہوئے جاوید لطیف کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ جاوید لطیف کا متنازع بیان اپنے لیڈر کی محبت میں حدود کو تجاوز کرنے کے مترادف ہے، جاوید لطیف کے بیان کی سی ڈی کو فرانزک کے لیے بھجوا دیا گیا ہے، پراسیکیوشن کا کیس قانون کے تمام تقاضوں کے مطابق ہے، اس مرحلے پر جاوید لطیف کی ضمانت نہیں بنتی۔ پراسیکیوشن نے کہا کہ جاوید لطیف کے کیس میں جو سیکشن لگائے گئے ہیں وہ قابل ضمانت نہیں ہیں، جاوید لطیف نے مقدمے کے اخراج کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا وہاں کیا ہوا سب کو پتا ہے، جاوید لطیف کی ضمانت خارج کی جائے تاکہ اس کیس میں تفتیش کو مکمل کیا جا سکے۔
سرکاری وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ ایک شخص کی محبت میں ریاست کو دھمکی دی گئی، میرا فرض ہے کہ متنازعہ بیان پر قانونی چارہ جوئی کر سکوں، 'پاکستان نہ کھپے' کہنے سے بڑا شاید کوئی جرم نہیں ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نےبھی اس کیس میں کہا کہ پاکستان کے خلاف بات کرنی ہے تو بنگلہ دیش چلے جائیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جاوید لطیف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت خارج کردی۔
ضمانت منسوخ ہونے کے بعد جاوید لطیف کو سی آئی اے نے گرفتار کر لیا۔ جیو نیوز کی خبر کے مطابق لیگی رہنما جاوید لطیف فیصلہ سننے سے پہلے ہی عدالت سے روانہ ہوگئے تھے اور فیصلہ آنے کے بعد انہیں سگیاں پل سے گرفتار کیا گیا۔
مسلم لیگ ن کا جاوید لطیف کی گرفتاری پر رد عمل:
جاوید لطیف کی گرفتاری پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’میاں جاوید لطیف کی گرفتاری انتہائی قابل مذمت ہے۔پارلیمنٹ پہ لعنت بھیجنے ،پولیس والوں کا سر پھاڑنے، ہنڈی کے ذریعے پیسے منگوانے ،۲۳ خفیہ اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کرنے، بجلی کے بل جلانے،ملک بند کرنے،الیکشن کمیشن کا عملہ چوری کرنے،منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش کرنے والا گرفتار نہیں ہوتا۔
https://twitter.com/Marriyum_A/status/1386941389775130625
رہنما مسلم لیگ نے مزید کہا کہ ’سیلیکٹڈ حکومت کا کرپشن کا بیانیہ دفن تو اب وہی گھسے پٹے غداری کے پرچے، جاوید لطیف ایک بہادر اور نڈر سیاسی کارکن ہیں، وہ حکومت کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں۔ امید ہے عدلیہ انہیں انصاف فراہم کرے گی۔‘
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں مریم نواز کو مبینہ دھمکی کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا تھا کہ 'اگر خدانخواستہ مریم نواز شریف کو کچھ ہوا تو ہم پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے'۔
اس بیان پر دو روز قبل جاوید لطیف کے خلاف ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور غداری سمیت سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جاوید لطیف نے اپنے خلاف دائر اس مقدمے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن درخواست پر سماعت کے دوران عدالت کے سخت ریمارکس کے بعد انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔
میاں جاوید لطیف کے خلاف مقدمہ لاہور کے شہری جمیل سلیم کی مدعیت میں تھانہ ٹاؤن شپ میں درج کیا گیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ جاوید لطیف نے ملک کی حکومت اور سالمیت کے ساتھ ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔