سوشل میڈیا صارفین اگرچہ عملی میدان میں اپنی حاضری تو نہ لگا سکے اکثر نے مختلف انداز سے اپنا احتجاج سوشل میڈیا پر ہی ریکارڈ کرنا فرضِ عین سمجھا. اِن میں ایک ٹولہ ایسے سادہ لوح مسلمان حضرات کا بھی تھا جن کی نظر میں یہ سارا کرتا دھرتا 'یہود ونصاریٰ' کے ہاتھ میں تھا یا کسی طور یہ سب اِنہی یہودیوں کے لئے ہو رہا ہے. اِن بھولے مسلمان حضرات میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے یہودیوں کو براہ راست چیلنج کرتے ہوئے 'ایران' کی طرح ایک نیا انداز اپنایا.اِنہوں نے یہودیوں کو تکلیف پہنچانے اور ناموسِ رسالت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا احساس دلانے کے لئے یہودی تاریخ کے واقعات میں سے ایک واقعہ- ہولوکاسٹ، کا انتخاب کیا.
اِن نادان مسلمانوں نے اپنے ارد گرد دیگر لاعلم مسلمانوں کی طرح ہولوکاسٹ کی تصویریں اور چند مختصر و مفصل تحریریں شیئر کیں. اِس 'برقی احتجاج' کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد علم ہوا کہ ہمارے چند تعلیم یافتہ افراد سمیت دیگر سادہ لوح صارفین نے بھی' برقی احتجاج' ریکارڈ کرانے کے لئے کمر کس لی تھی. افسوس تو تب ہوا جب تمام تحریروں اور تصاویر کا جائزہ لیا گیا تو معلوم پڑا کہ اِن میں سے اکثر صارفین کے پاس اِس تاریخی واقعہ کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ معلومات ہی نہیں ہیں.
دراصل ہمارے چند سادہ لوح مسلمان بھائیوں نے ہولوکاسٹ کی تصویریں شیئر کیں اور دعویٰ ظاہر کیا کہ 'اِس کو ذیادہ سے ذیادہ شیئر کیا جائے؛ شیئر کرتے ہوئے اگر ہماری فیس بُک آئی ڈی بھی بلاک ہو جائے تو کوئی پرواہ نہیں. یہ یہودیوں کی تاریخ کا ذلت آمیز واقعہ ہے. شیئر کریں تاکہ اِن کو اِن کی اوقات یاد دلائی جائے؛ فلاں فلاں فلاں' حالانکہ اُن کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ عمل یہودیوں پر طنز نہیں بلکہ اُن سے اظہارِ ہمدردی کے مترادف ہے. لیکن ضروری معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اِن کو اِس حوالے سے ٹھیک معلومات کا ادراک بھی نہیں تھا. مشاہدے کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ اکثر صارفین نے اِسی لئے یہ مواد شیئر کیا تاکہ یہودیوں کو بھی تکلیف پہنچے اور اُن کو بھی احساس ہو کہ ناموسِ رسالت پر بات کرنے کے جرم میں 'سادہ لوح مسلمان' ہولوکاسٹ پر بھی بات کرسکتے ہیں.(جو کہ ایک الگ زاویے سے یورپی ممالک میں ممنوع ہے). اِن کے مطابق پوری دنیا میں اِس واقعے پر بات کرنا جرم ہے اور جو بھی بات کرتا ہے اُسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
یوں لاعلمی میں اِن کا یہ طرزِ عمل اور ردعمل ایک زاویے سے یہودیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار تھا اور تو اِس لئے یہاں اِس تاریخی واقعے پر مختصر بات کر کے وہ پہلو اُجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی جس پر دنیا میں بات کرنے کی پابندی ہے.
لفظ ہولوکاسٹ بنیادی طور پر یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مکمل جلا دینا.
یہ تاریخی واقعہ یکدم رونما نہیں ہوا بلکہ یہ یہودیوں کے ساتھ کافی عرصے سے امتیازی سلوک کی آخری کڑی تھی. نازی قوتیں یہودیوں سے نفرت کرتی تھیں. اُن کو نسلی اور قومی اعتبار سے حقیر مانتے تھے. نازی فلسفے کے مطابق یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل میں ملوث تھے؛ بعض روایات کے مطابق اِن کو پہلی جنگِ عظیم کی ہار سے بھی جوڑا جاتا تھا. الغرض اِن کو ہر لحاظ سے کم تر تصور کرتے تھے. تاہم جب ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اُس نے باقاعدہ اِن کو ختم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی. اور اِسی سلسلے میں ' ہولوکاسٹ' جیسا انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا(یہودیوں کے مطابق).
یہودیوں کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوجیوں نے تقریبا "چھ میلین" یہودیوں کو زندہ جلادیا تھا. اِن کے مطابق نازی حکومت نے ایسی مخصوص عمارتیں تعمیر کیں جن میں اِن کو مارا جاتا؛ اِن کو زندہ درگور کیا جاتا؛ یہودیوں کی تعداد زیادہ اور وقت کی قلت کی وجہ سے اِن کو مارنے کے لئے طرح طرح کے طریقہ کار اپنائے گئے. یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی تاریخ یہودیوں کی جانب سے اِسی طرح پیش کی جاتی ہے۔ وہ لوگ تاریخ کو اِسی زاویے سے یعنی ظلم و ستم کے حوالے سے پیش کرتے ہیں تو یہودیوں کے لئے وہ لوگ نہایت عزیز ہوتے ہیں.
اب اصل سوال یہ ہے کہ پابندی کس بات پر ہے؟ اِن کو ٹھیس کیوں اور کیسے پہنچتی ہے؟
اِس واقعے کو جوں کے توں بیان کرنے اور تصاویر شیئر کرنے پر کوئی پابندی نہیں. اصل پابندی اِس بات پر ہے کہ جب آپ اِس تاریخی واقعہ کو جھٹلاتے ہیں. اِس حوالے سے باقاعدہ ایک مکتبہ فکر بن چکا ہے جو تاریخی حوالوں سے اِس واقعے کو جھٹلاتا ہے. اِس مکتبہ فکر کے فالورز کے مطابق ہولوکاسٹ ایک خود ساختہ کہانی ہے؛ یہ کہانی کچھ معاشی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی. اِن کے مطابق ہٹلر یا نازی حکومت نے چھ میلین یہودیوں کا قتلِ عام نہیں کیا بلکہ یا تو یہ بھوک سے مرے یا پھر بیماریوں سے. یہ لوگ اِسے ایک افسانوی داستان مانتے ہیں. عام طور پر رائے پائی جاتی ہے کہ یہ لوگ نازی حکومت کو ایک باقاعدہ نظام منوانے کے لئے اِس قسم کے دعوے کرتے ہیں. اِن کے مطابق ہولوکاسٹ کی کہانی اِس لئے بنائی گئی تاکہ یہودیوں کو اسرائیلی ریاست بنانے کے لئے ایک بہانہ مل سکے کیونکہ اِس سے پہلے اِن کے لئے کوئی باقاعدہ ریاست کا وجود موجود نہیں تھا. اِن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جرمنی کے مخالفین نے دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کو ویلن کے طور پر پیش کرنے کے لئے یہ تاریخی جھوٹ بولا.
الغرض متن کا مقصد یہ ہے کہ یہودیوں کو سخت کوفت تب محسوس ہوتی ہے جب آپ اِس واقعے کو سِرے سے جھٹلاتے ہیں اور اِن کے تاریخی جھوٹ پر سوال اُٹھاتے ہیں. کیونکہ یہودیوں کے وجود کو ماننے اور اُن کے لئے ہمدردی جگانے کے لئے ہمیشہ اِس واقعے کا سہارا لیا جاتا ہے.
یہودی خود اِس واقعے کو یاد کرنے کے لئے عرصہ دراز سے سعی کرتے آرہے ہیں. اِسی وجہ سے اقوامِ متحدہ نے ہر سال 27 جنوری کو ہولوکاسٹ کے حوالے سے یاداشت کے طور پر ایک دن منانے کے لئے مختص کیا. جو ہر سال یہودیوں کے حامی اور خود یہودی اِس واقعے کی یاد میں مناتے ہیں. اسرائیل میں بھی اس دن کی مناسبت سے سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے.
اِسی وجہ سے یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کو جھٹلانے والوں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی کی جاتی ہے تاکہ لوگ اِسے جھٹلانے سے باز آجائیں، جس طرح وہ چاہتے ہیں اُسی طرح یہ واقعہ لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو اور لوگ اِسے حقیقت ماننے پر رضا مند ہوں۔
اِسی وجہ سے اِن ممالک میں اِس واقعے کو جھٹلانے والوں کے خلاف قانون سازی ہوئی ہے، اِسی وجہ سے کئی لوگوں کو محض اِس بنا پر سزائیں سنائی گئیں کہ اُنہوں نے اِس تاریخی واقعے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی تھی. اِس وجہ سے اکتوبر 2020 کو فیس بُک کے بانی مارک زکربرگ نے ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے کے لئے فیس بُک کی پالیسی اپڈیٹ کی اور اِسی لئے اب کوئی بھی فیس بُک پر اس واقعے کے خلاف اگر بیان شیئر کرتا ہے تو اُس کو بلاک کر دیا جاتا ہے. کسی حد تک مارک زکربرگ کی دیکھا دیکھی میں ٹویٹر پر بھی اِسی قسم کی پالیسی اپنائی گئی.
اِسی لئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حالیہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یورپی ممالک سے استدعا کی کہ جیسے ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے سے یہودیوں کو دکھ پہنچتا ہے ٹھیک اِسی طرح ناموسِ رسالت کے خلاف بات کرنے سے مسلمانوں کو دکھ و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مسلمانوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آتا ہے. ٹھیک اِسی طرح کا بیان اکتوبر 2020 میں ایرانی سپریم لیڈر خمینی نے بھی پیش کیا تھا.
جب پہلی بار دانش نامی اخبار میں پیغمرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے گئے تو فروری 2006 میں ردعمل کے طور پر ایران کے ایک اخبار نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے کارٹونز بنانے کا مقابلہ منعقد کیا. اِسی طرح دسمبر 2015 میں بھی ایران کی ایک تنظیم نے اِسی طرز کے مقابلے کا انعقاد کیا. یہ سب گستاخانہ خاکوں کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا. تاکہ یہودیوں کو احساس ہو کہ ناموسِ رسالت کے خلاف بات کرنا فریڈم آف سپیچ نہیں!
اِن ردعمل کا ذکر اِس حوالے سے کیا جا رہا ہے تاکہ ہمارے سادہ لوح مسلمان بھائیوں کو یہ علم ہو کہ ہولوکاسٹ کی تصویریں اور غصے سے بھرپور تحریریں شیئر کرنے کا مطلب یہودیوں سے اظہارِ ہمدردی ہے. جبکہ شعوری طور پر اُن کا مقصد یہودیوں پر طنز کرنا ہوتا ہے. حقیقت میں اگر یہودیوں کو پریشانی ہوتی ہے یا اُن کو اشتعال دلایا جاتا ہے تو اُس کے لئے عمومی طور پر اس تاریخی واقعے کو باقاعدہ حوالوں، دلیلوں اور سندوں کے ساتھ جھٹلایا جاتا ہے جو کہ ایک عام صارف کی بس کی بات نہیں. یہ کام خاص طور پر تاریخ دان کرسکتے ہیں یا وہ لوگ اِس واقعے کو رد کرنے کے قابل ہوتے ہیں جنہیں تاریخی حوالوں کا ادراک ہو.
تاہم آپ کا حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اتنا بھی اندھا نہ ہو کہ آپ تحقیق کے بغیر ایک ایسا عمل کر بیھٹیں جس کا آپ کو علم بھی نہ ہو. عشقِ رسول ہمیں صرف یہ نہیں سکھاتا کہ آپ فیس بُک پروفائیل پر 'لبیک یا رسول اللہ' کے فریمز لگائیں بلکہ دینِ مبین آپ سے یہی کہتا ہے کہ آپ مکمل تحقیق کے ساتھ سیاسی اور معاشی پراپیگنڈوں کو سمجھیں اور پھر ملک گیر احتجاج یا برقی احتجاج میں حصہ لیں.
اگر مشاہدہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اکثر غیر مسلموں کو مسلمانوں کی تاریخ کا ذیادہ علم ہوتا ہے. اِسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ ہمارے اندر پھوٹ ڈالنے اور ہماری پالیسیاں سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ہم یہاں ایک معمولی واقعے کے لئے بھی تحقیق نہیں کرپاتے! پہلے اپنے مذہب کو سمجھیں اور پرکھیں؛ پھر دیگر مذاہب کا مطالعہ بھی کریں تاکہ آپ کو علم ہو کہ کیسے اِن نسلی، لسانی، علاقائی، سیاسی ، مذہبی اور معاشی پراپیگنڈوں کا جواب دینا ہے.