"ہم نے عید کرنے گھر جانا تھا مگر میرے کزن کو آج اٹھا لیا گیا" پنجاب یونیورسٹی سے بلوچ طالب علم لاپتہ

12:31 PM, 27 Apr, 2022

نیا دور
گزشتہ روز کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں خفیہ اداروں نے آج صبح ساڑھے 7 بجے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 7 سے بلوچ طالب علم بیبگر امداد بلوچ کو اٹھا لیا۔

تفصیلات کے مطابق بیبگر امداد اپنے چچا زاد کزن سالم بلوچ کے پاس گزشتہ رات اسلام آباد سے لاہور پہنچا تھا۔ سالم بلوچ کے مطابق وہ آج ہی عید کی چھٹیوں پر لاہور سے تربت (بلوچستان) روانہ ہو رہے تھے لیکن اس کے کزن کو لاپتہ کر دیا گیا۔

سالم بلوچ نے نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسکا کزن بیبگر امداد نمل یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر میں بی ایس کی ڈگری کر رہا ہے اور اس کا ساتواں سمسٹر چل رہا ہے۔ وہ کل ہی اپنے کزن کے پاس لاہور پہنچا تھا جہاں سے ان دونوں نے مل کر عید کی چھٹیوں پر گھر (تربت) جانا تھا۔

سالم نے بتایا کہ آج علی الصبح جب ہم دونوں کمرے میں سو رہے تھے تو دروازے پر دستک ہوئی تو بیبگر نے مجھے اٹھایا اور کہا کہ دروازہ کھولو، جب میں دروازہ کھولنے گیا تو یونیورسٹی کا چیف سیکوریٹی آفیسر اور اس کے ہمراہ سول کپڑوں میں کچھ نقاب پوش کمرے میں داخل ہوئے اور انتہائی بدتمیزانہ انداز میں پوچھنے لگے کہ بیبگر امداد کون ہے، تو اس نے بتایا کہ میں ہوں، نقاب پوش نے کہا کہ آپ کی چیکنگ کرنی ہے، تم ہمارے ساتھ چلو۔ اس پر بیبگر نے جواب دیا کہ آپ میری چیکنگ کریں جو پوچھنا ہے پوچھیں مگر میں ساتھ نہیں جاؤں گا، آپ کے پاس مجھے ساتھ لے جانے کے وارنٹ بھی نہیں ہیں۔

سالم نے بتایا کہ اس جواب پر انہوں نے زبردستی شروع کر دی اور اس کو کمرے سے کھینچتے ہوئے لے گئے، سالم نے بتایا کہ مجھے کمرے کے باہر سے بند کر دیا اور تشدد کرتے ہوئے اس کے کزن کو ویگو ڈالے میں بٹھا کر لے گئے۔ سالم کے مطابق وہ اس کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی اپنے ساتھ لے گئے۔

سالم کا کہنا ہے کہ اس کا کزن ایک غیر سیاسی انسان ہے، وہ سوشل میڈیا پر سیاسی موضوعات پر بہت کم گفتگو کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ بیبگر کے والد اور میرے چچا بلوچستان کے لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں آفیسر ہیں اور ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کا کسی قسم کی سیاسی یا علیحدگی پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔



سالم کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کی بلوچ کونسل نے سی ایس او سے ملاقات کی مگر وہ کسی قسم کا تعاون کرنے کو تیار نہیں، اس نے بتایا کہ اس جبری گمشدگی کی وجہ سے طلبہ نے وی سی آفس کے سامنے دھرنا دے رکھا اور ہم بڑے احتجاج کا بھی لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔

https://twitter.com/raialimanj21/status/1519264472581423105

اس معاملے میں متحرک اور بلوچ طلبہ کی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والی انسان حقوق کی کارکن ایمان مزاری نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی ایک معمول بن چکا ہے، بیبگر امداد کی جبری گمشدگی کے حوالے سے انہوں نے لاہور میں کچھ وکلا سے بات کی ہے جو ہائیکورٹ میں کیس دائر کروائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وارنٹ گرفتاری کے بغیر کسی کو بھی اس طرح اٹھانا غیر قانونی ہے۔

ایمان مزاری سے جب پوچھا گیا کہ کل کے واقعے میں ایک پڑھی لکھی خاتون کے ملوث ہونے کے بعد کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو سکتے۔ اس کے جواب میں ایمان مزاری نے کہا کہ وہ کبھی بھی تشدد اور دہشتگردی کی حمایت نہیں کرتیں تاہم ایک پڑھی لکھی اور باشعور خاتون کو کن محرکات نے مجبور کیا کہ اس نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔

https://twitter.com/ImaanZHazir/status/1519267340449320960

انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان میں جاری انسانیت پر ظلم کو ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے پاکستان میں لوگ کشمیر اور فلسطین کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، ریاست اور خاص طور پر فوج کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ، ایسے نوجوانوں کو دن دیہاڑے غائب کریں گے، بغیر کسی قاعدہ قانون انہیں اٹھائیں گے تو وہ دہشتگرد بننے پر مجبور ہوجائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے حفیظ بلوچ کے ساتھ یہ رویہ اپنایا گیا، ہم نے اس کے لئے آواز اٹھائی تو اب وہ سامنے آگیا اور اس کا کیس چل رہا ہے لیکن آج پھر ایک اور طالب علم کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہے اور اس میں ریاست اور ریاستی ادارے شامل ہیں۔

اس معاملے پر معروف محقق اور انسانی حقوق کے کارکن عمار علی جان نے کہا کہ "میں کئی بلوچ نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہیں جبری طور پر گمشدہ کرکے ٹارچر کیا گیا اور چند ہفتوں بعد یہ کہ کر چھوڑ دیا گیا کہ غلطی ہوئی ہے۔ لیکن یہ زخم ہمیشہ کے لئے لوگوں کے ذہنوں میں رہ جاتے ہیں اور بغاوت کو جنم دیتے ہیں۔ قانون و اخلاقیات کو پامال کرکے دہشتگردی کو ہرایا نہیں جاسکتا۔"

https://twitter.com/ammaralijan/status/1519257592014462984

https://twitter.com/ammaralijan/status/1519236039797260289
مزیدخبریں