یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے لیکن میں چونکہ دودھ پیتا بچہ نہیں اس لیے یہ اعتراف کر رہا ہوں کہ ان میں سے بیشتر سوالوں کے جواب مجھے معلوم نہیں۔ البتہ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان سوالوں کے درست جواب کہاں سے ملیں گے۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ یہ کون سی مشکل بات ہے، گوگل کرو اور سب جان لو۔ شاید ایسا ہی ہو مگر اس بات کا انحصار آپ کی نظریاتی وابستگی پہ ہے، آپ جس قسم کی معلومات چاہیں گے اس قسم کی معلومات آپ کو مل جائیں گے۔ انگریزی میں اسے confirmation bias بھی کہتے ہیں۔ یعنی بندہ جو نظریہ اپنانا چاہتا ہے وہ اسی کی تصدیق کے لیے من پسند حقائق اکٹھے کرتا ہے۔
مثلاً ایک شخص سگریٹ نوشی کرتا ہے اور ساری دنیا کے ڈاکٹر اس پر متفق ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے مگر وہ شخص سگریٹ نوشی کے ’فوائد‘ تلاش کر لے گا خواہ اسے دل کا دورہ ہی کیوں پڑ جائے! اسی طرح اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان نے گزشتہ پندرہ برس میں کتنا قرض لیا اور کس حکومت نے سب سے زیادہ قرض لیا اور کس نے سب سے زیادہ قرض اتارا تو آپ کے جواب کا دار و مدار اس بات پر ہو گا کہ آپ کس حکومت کو پسند کرتے ہیں، پھر آپ کو اپنی پسند کی جماعت کے حق میں ہر قسم کے ’حقائق‘ گوگل سے مل جائیں گے۔ یو ٹیوب نے یہ کام مزید آسان کر دیا ہے، ہر بندے نے اپنا چینل بنا لیا ہے، اس چینل کی مشہوری کے لیے یار لوگ چٹ پٹی سرخیاں (بینر) بناتے ہیں اور پھر اپنی ویڈیو میں دنیا جہان کی افواہیں اکٹھی کر کے نشر کر دیتے ہیں، ایسی ویڈیوز چونکہ بہت رش (ویوز) لیتی ہیں لہذا گوگل، جسے اب تک آپ کے من پسند بیانیے کا اچھی طرح علم ہو چکا ہے، اس ویڈیو اور اس سے متعلقہ خبروں کو بھی ’تلاش‘ میں اوپر لے آتا ہے اور یوں ہم اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم نے گوگل سے درست اور مستند معلومات اکٹھی کی ہیں۔
ایک تجربہ کر کے دیکھیں۔ اپنی مرضی کا کوئی بھی سوال گوگل کریں اور دیکھیں اس کا کیا جواب آتا ہے۔ آپ کے ایک کلک پر ہزاروں ویب سائٹس کھل جائیں گی، ان میں ایسی بھی ہوں گی جہاں آپ کو اپنی مرضی کا جواب مل جائے گا لیکن مستند ویب سائٹس صرف چند ہی ہوں گی اور انہیں چھانٹی کرنا ہی اصل کام ہے۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں، مثلاً اگر آپ پاکستان کے قرضوں کی تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کسی سیاسی بیان پر ایمان لانے کی بجائے سٹیٹ بنک آف پاکستان یا وزارت خزانہ کی ویب سائٹ دیکھ لیں، مہنگائی کی شرح جاننا چاہتے ہیں تو ادارہ برائے شماریات سے رجوع کر لیں اور ملک میں بجلی کی پیداوار کے بارے میں حقائق اکٹھے کرنے ہوں تو وزارت بجلی و پانی کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔
ملک میں اس وقت جعلی خبروں اور من گھڑت اعداد و شمار کا ایسا شور و غوغا ہے کہ کان پڑی سچائی سنائی نہیں دیتی۔ حال یہ ہو چکا ہے کہ آئے دن سرکاری اداروں کی ویب سائٹس کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جعلی خبروں اور اعداد و شمار کی تردید کرنی پڑتی ہے۔ سچ پوچھیں تو اس سارے کھیل میں اصل مجرم سوشل میڈیا کے اکھاڑے (پلیٹ فارمز) ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوتو گوگل، یو ٹیوب، فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام پر امریکہ جا کر مقدمہ دائر کردوں۔ ایلون مسک نے 44 ارب ڈالر کے عوض ٹویٹر خرید لیا ہے جبکہ فیس بک اور وٹس ایپ مارک زوکر برگ کی ملکیت میں ہیں۔ یہ کمپنیاں اور ان کے ارب پتی مالک پیسہ کمانے کا تو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر اس بات کی ذمہ داری نہیں لیتے کہ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کوئی گمراہ کن خبر یا من گھڑت اعداد و شمار نہیں پھیلائے جائیں گے۔
گزشتہ دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ نظر سے گزری جس میں مستند سرکاری ویب سائٹ کا حوالہ دے کر ان بیشتر سوالوں کا جواب بتایا گیا تھا جو آج کل ہر بندے کی زبان پر ہیں۔ افسوس کہ پاکستانی میڈیا کی ایسی کوئی کاوش سامنے نہیں آئی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینل غلط اور گمراہ کن خبروں اور من گھڑت حقائق کو درست کرنے کا ایک سلسلہ شروع کریں۔ اخبارات میں ایک علیحدہ سیکشن بنا دیا جائے جس کا نام ہی ’فیکٹ چیک‘ ہو اور وہاں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کی پڑتال کر کے بتایا جائے کہ فلاں خبر کس طرح غلط ہے اور حقائق کیسے مسخ کیے گئے ہیں۔
ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے یہ سلسلہ شروع کیا ہوا ہے مگر پاکستان میں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ یہاں جلسوں کی جعلی تصاویر شیئر کی جاتی ہیں، جعلی سرکاری خطوط پر خبریں بنائی جاتی ہیں اور اگر کہیں سند کی زیادہ ضرورت پڑ جائے تو کسی چیتھڑا نما اخبار میں شریف آدمی کی تصویر لگا کر خرافات شائع کر دی جاتی ہیں۔ میرے والد صاحب خود ایسی گھٹیا کردار کشی کا شکار بن چکے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جعلی خبروں کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اظہار رائے پر پابندی لگادی جائے، جعلی خبروں کی روک تھام کا حل ہتک عزت کے قانون کو مضبوط بنانے میں ہے، ہمارے ہاں چونکہ اس قانون کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے اس لیے کردار کشی کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے ہمارے دوست رضا رومی پر ایک صاحب نے بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا اور نہایت اطمینان سے ٹویٹ کردی۔ رضا رومی نے جواب میں لکھا کہ جناب والا آپ چونکہ برطانیہ میں موجود ہیں لہذا میں اس جھوٹے الزام پر آپ کے خلاف برطانیہ میں مقدمہ کروں گا، اگلے چند منٹوں میں اس بندے نے ٹویٹ واپس لے کر معافی مانگ لی۔ وجہ وہی کہ برطانیہ میں آپ کو اس طرح کا الزام لگانے پر بھاری جرمانہ عاید کیا جا سکتا ہے اور جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یہ سب نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے، دنیا یونہی چلتی آئی ہے اور یونہی چلتی رہے گی، حقائق کو ایسے ہی مسخ کیا جاتا رہے گا، سچائی کی تلاش ایسے ہی مشکل رہے گی، کیونکہ یہ کام اگر آسان ہوتا تو خدا کو بندوں کو ہدایت دینے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ اور اب ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اس میں تو اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ جعلی خبروں کو درست سمجھ لیتے ہیں اور اس پر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کسی کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ برٹرینڈ رسل بن کر اپنے تعصبات کو پرے رکھے اور محض حقائق کی چھانٹی کر کے رائے قائم کرے، قریباً نا ممکن ہے۔
کالم کی دم:ابھی ابھی ایک ٹویٹ نظر سے گزری، کسی ستم ظریف نے ایلون مسک کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے : ”آل پاکستان انجمن آرائیں اتحاد کی جانب سے میاں ایلن مسک (امریکہ ) کو نیا کاروبار شروع کرنے پر مبارکباد۔“ خدا کو جان دینی ہے، ہم جس قسم کی بھی قوم ہیں، پر ہماری حس مزاح کا کوئی مقابلہ نہیں۔