محمود خان اچکزئی نے مزید کہا کہ افغانستان، انڈیا اور پاکستان کو بھی ایران اور سعودی عرب کی پیروی کرتے ہوئے آپس میں دوستانہ تعلقات قائم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغانستان اور پاکستان کو چاہئیے کہ اپنے تمام پڑوسی ممالک کو ان کے معاملات میں عدم مداخلت کی یقین دہانی کرائیں۔ دیگر پڑوسی ممالک بھی پاکستان اور افغانستان کو یہی ضمانت دیں۔ اس اقدام سے خطے میں امن اور خوشحالی آ سکتی ہے۔
ملک کے موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ خواہ جج ہوں، جرنیل یا سیاست دان، ہم کسی کو ملک پر آمریت مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جس طرح ہم نے ماضی میں فوجی مارشل لاؤں کے خلاف مزاحمت کی، عین اسی طرح جوڈیشل مارشل لاء کے خلاف بھی مزاحمت کریں گے۔ لہٰذا جج آئین اور قانون کے مطابق انصاف کریں نا کہ ذاتی و سیاسی پسند نا پسند کی بنیاد پر۔ آئین کا نام سب لیتے ہیں لیکن بات سیاسی پسند نا پسند کی کرتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے خبردار کیا کہ کوئی جمہوریت پسند انتخابات کے انعقاد سے انکار نہیں کر سکتا لیکن سیاسی مخاصمت کی موجودہ فضا میں جو دن بدن سیاسی عدم برداشت اور نفرت کو بڑھا رہی ہے، ایسے وقت میں انتخابات کے انعقاد کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے تا کہ موجودہ سیاسی درجہ حرارت کو نارمل کر کے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آئین بالادست ہو گا، پارلیمنٹ خودمختار ہو گی اور آئندہ کوئی جنرل یا جج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا۔
محمود خان اچکزئی نے مطالبہ کیا کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سینیٹ کے اختیارات کو قومی اسمبلی کے حقوق کے برابر کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس دو قومی صوبے بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کے برابر سیاسی و معاشی حقوق تسلیم کیے جائیں۔ بصورت دیگر پشتون اپنے لیے متحدہ صوبہ حاصل کر لینے تک اپنے تاریخی صوبہ برٹش بلوچستان کی بحالی کیلئے جدوجہد کی راہ اپنائیں گے۔
محمود خان اچکزئی نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کے منجمد اثاثے فوری طور پر واگزار کروائے جائیں تا کہ وہاں کے عوام کی تکالیف اور مصیبتوں میں کمی آ سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تعلیم نسواں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ختم کی جائیں اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جائے لیکن ساتھ ساتھ خبردار بھی کیا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کو بہانہ بنا کر افغانستان کی سالمیت اور آزادی پر حملہ آور ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں پر غربت اور بیروزگاری ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور عوام کو سوائے سرحدی تجارت کے اور کوئی ذرائع روزگار میسر نہیں ہیں لہٰذا حکومت فوری طور پر چمن، بادینی، قمر الدین، انگور اڈہ وغیرہ جیسے باڈر پوائنٹس کو تجارت کیلئے کھول کر وہاں پر کسٹم ہاؤسز قائم کرے تا کہ لوگوں کو روزگار ملے۔ اس سے نا صرف مقامی آبادی کے معاشی حالات بہتر ہوں گے بلکہ امن و امان کی صورت حال میں بھی بہتری آئے گی۔
جلسہ عام سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرؤف لالا، مرکزی سیکرٹری اطلاعات طالعمند خان، صوبائی صدر جنوبی پشتونخوا عبدالقہار خان ودان، صوبائی سیکرٹری مالیات سید لیاقت علی آغا اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری سردار امجد خان ترین نے بھی خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالحق ابدال نے سرانجام دیے جبکہ تلات کلام پاک کی سعادت مولانا شراف الدین صاحب نے حاصل کی۔ ضلع پشین کے معاون سیکرٹری اور ممتاز شاعر رضا شیدا نے اپنا شعری کلام پیش کیا۔