عدلیہ کی تاریخ سے زیادہ خوش نہیں ہوں، کالے دھبے موجود ہیں: جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہماری جوڈیشری میں بھی کالے دھبے موجود ہیں ہماری جوڈیشری میں بہت سارے ہزاروں فیصلے ہرسال ہوتے ہیں اس میں سے کچھ فیصلے تنقید کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں لیکن میں جوڈیشری کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں یہ بہت سارے فیصلے کرکے کام بھی کر رہی ہے۔

04:23 PM, 27 Apr, 2024

منیر باجوہ

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی تاریخ سے زیادہ خوش نہیں ہوں، دنیا میں ہماری عدلیہ سے متعلق ڈیٹا قابل تشویش ہے۔ جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال کر باہر پھینک دینا چاہیے یہ ہو نہیں سکتا کہ جو جج کام نہ کرے وہ مزید جوڈیشری کا حصہ رہے۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہماری جوڈیشری میں بھی کالے دھبے موجود ہیں ہماری جوڈیشری میں بہت سارے ہزاروں فیصلے ہرسال ہوتے ہیں اس میں سے کچھ فیصلے تنقید کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں لیکن میں جوڈیشری کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں یہ بہت سارے فیصلے کرکے کام بھی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاکستان میں دو ملین سے زائد کیسز زیر التواء ہیں اس وقت دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 132 واں نمبر ہے میں دنیا میں ہماری جوڈیشری کے اس نمبر کو بہتر نہیں کہوں گا۔ میں اگر کسی ایڈینشل سیشن جج کو کہوں  کہ آپ کو کون سے کیس میں مسئلہ ہے تو ہمارے جج ہمیں نہیں بتاسکتے ہمیں جوڈیشری سسٹم کو ڈیٹا اینالائسز روم بنانے ہوں گے ہمیں اپنی جوڈیشری میں الارم بنچ بنانے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ججز ہمیں بتا ہی نہیں سکتے کہ کون سا کیس کس مرحلے میں ہے۔ہمیں جوڈیشری میں ایسی ٹیکنالوجی لانی ہے جس میں ڈیٹابیس موجود ہو۔ ججز اپوائنٹ منٹ پراسس کو بہتر بناسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ججز جو لگائے جاتے ہیں اسے بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے جج سسٹم کو اٹھا بھی سکتا ہے اور بٹھا بھی سکتا ہے۔ جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال کر باہر پھینک دے دینا چاہیے یہ ہو نہیں سکتا کہ جو جج کام نہ کرے وہ مزید جوڈیشری کا حصہ رہے ہمیں کرپشن پر اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنی مرضی کا جج لگائیں محض فیصلہ لینے کے لیے۔ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پریکسٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے لیے بہترین اقدامات کیے۔ ہمارے سسٹم کو مافیاز بھی کنٹرول کر رہے ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایک بہترین جانب جانے کا ذریعہ بنا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہے۔ اے ڈے آر سینٹر جو مصالحتی کردار ادا کرتا ہے وہ عدالتوں میں مزید قائم کرنے ہیں۔  30 سے 40 فیصد مصالحتی سینٹرز نے کیسز کو نمٹایا۔ دنیا میں مصالحتی سینٹرز 90 فیصد کام کر رہے ہیں۔ پاکستانی عدالتوں میں روزانہ 70 ہزار کیسز دائر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی پاپولیشن 231 ملین ہے اس طرح 90 جج فی ملین آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برازیل بجٹ کا سب سے زیادہ جوڈیشری پر خرچ کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے کہ 80 فیصد زیر التواء کی وجہ ایڈجرمنٹ ہے۔ جب بغیر کارروائی کے کیس کی تاریخ لے لی جائے تو پھر یہیں عالم رہے گا۔

جسٹس منصور نے مزید کہا کہ بارز ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ کیسز کے ایڈجرنمنٹ کو آپ خود بھی دیکھیں۔ بارز بھی اس کی بہت بڑی وجہ بنتی ہے۔آپ کو اندازہ ہے ہی نہیں کہ ایک سائل درخواست گزار کو کیا قیمت عدالت میں آنے کے لیے ادا کرنی پڑتی ہے۔ سائلین اپنی بھیڑ بکریاں بیچ کر کیس لڑنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک اچھا وکیل مہیا ہوتا ہے۔

تقریب سےخطاب کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جیسا بھی معاشرہ ہو عدلیہ لوگوں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ ہم مشہور ہونے کی زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عدالتوں کو انصاف دینا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتوں کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ مشہور ہونے کی بجائے اس ملک کے لوگوں کو حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے کے بعد عدالتوں کو اب اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کی ضرورت ہے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ریاضت علی ساحر کا کہنا تھا کہ عدالتیں قانون کی حکمرانی کیلئے ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ کا شکریہ کہ جس نے تمام حالات کے باوجود الیکشن کروائے۔ سپریم کورٹ ملٹری کورٹس کے معاملے پر بہتر فیصلہ جاری کرے۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں نیدرلینڈز کے سفیر ہینی فوکل اور سپین کے سفیر ہوزے اینتونیو دی اورے  نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔

ہینی فوکل نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں انسانی حقوق کیلئے جنگ لڑی۔ آزاد و خود مختار میڈیا جمہوریت کے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی جمہوریت اور سول رائٹس کے خلاف ہے۔

سپین کے سفیر ہوزے اینتونیو دی اورے نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں مرد و خواتین کو برابر حقوق حاصل ہیں۔ مجھے سپین کا شہری ہونے ہر فخر ہے جہاں ہر کسی کو آزادی حاصل ہے۔ سپین میں ہر نئے وکیل، ڈاکٹر، مزدور کی تنخواہیں برابر ہیں۔

مزیدخبریں