امریکہ سے خراب تر ہوتے تعلقات کہیں ترکی کو لے تو نہیں ڈوبیں گے؟

11:45 PM, 27 Aug, 2018

افتخار بھٹہ
ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر بننا، اس کی متلون مزاجی اور جارحانہ بیانات کوئی حادثاتی عوامل نہیں ہیں۔ یہ تمام خلفشاری کیفیات سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی علامات ہیں جن کی امریکہ نمائندگی کرتا ہے۔ امریکہ نے اپنی فوجی اور معاشی طاقت کے ذریعے دنیا کو ہمیشہ زیر بار رکھا ہے۔ سوؤیت یونین کے منتشر ہونے کے بعد وہ ایک واحد عالمی قوت بن کر ابھرا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر امریکہ نے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں کیا کھلواڑ کیا جس میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے، زخمی ہوئے اور اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور آج بھی ظلم و ستم کا سلسلہ دہشت گردی کے واقعات، سول آبادی پر بمباری اور خود کش حملوں کی صورت میں عراق شام اور افغانستان میں جاری ہے۔ جبکہ یمن میں بھی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

ٹرمپ کے فیصلوں سے نیٹو ممالک بھی پریشان

ان اقدامات سے یورپی یونین اور نیٹو ممالک بھی پریشان ہیں کہ ٹرمپ نے جس تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے وہ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو بگاڑ رہی ہے، جس سے تجارتی معاہدے خطرات سے دو چار ہیں۔ پہلے امریکی منڈی میں 32 ارب ڈالر کی چینی درآمدات پر 25% ڈیوٹی عائد کی گئی تھی اب 200 ارب ڈالر کا مزید ٹیرف لگا دیا گیا ہے۔ یہ تمام کام امریکہ چین کی طرف سے درآمدات کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے کر رہا ہے۔ واضح رہے چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارہ 375 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ یہ تجارتی جنگ عالمی سرمایہ داری نظام کو 2008 سے بڑے مالیاتی بحران سے دو چار کر سکتی ہے۔ امریکہ نے قومی معیشت کے نام پر 'سب سے پہلے امریکہ' کا نعرہ لگایا ہے جس کا مقصد مقامی صنعتوں کی بحالی کے لئے پابندی عائد کرنا یا زیادہ معصولات لگانا ہے۔

اس سلسلے کی ایک کڑی ترکی پر فولاد اور ایلومنیم پر ٹیرف کو دوگنا کرنا کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں ترکی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک لیرا ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلہ میں کمزور ہے اور امریکہ کے ترکی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ ترک صدر اردوان نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ڈالر کے ساتھ اللہ اور عوام ہیں، اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اقتصادی جنگ کے نتیجے میں امریکہ کو شکست ہوگی۔ وہ کسی صورت امریکی دھمکی میں نہیں آئیں گے۔ 15 جولائی 2016 کو ترکی کا تختہ الٹنے کی ناکام منصوبہ بندی کرنے والے اب ترک معیشت کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔



' ترکی کے ساتھ یکطرفہ اور غیر مہذب انداز کو تبدیل نہ کیا تو ترکی نئے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے دریغ نہیں کرے گا'

امریکہ کے مشہور اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں ٹرمپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس نے ترکی کے ساتھ یکطرفہ اور غیر مہذب انداز کو تبدیل نہ کیا تو ترکی نئے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے دریغ نہیں کرے گا۔ یاد رہے کہ امریکہ اور ترکی کے درمیان پادری اینڈریوپرسن کے علاوہ دیگر معاملات پر اختلافات ہیں جن میں شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی تجاوزات، PYD کی امریکہ کی جانب سے پشت پناہی، داعش، ترکی کے روس سے مزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری، 15جولائی 2016 کی ناکام بغاوت کے ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کی امریکہ میں پناہ اور اس کو ترکی کے حوالے نہ کیا جانا سر فہرست ہیں۔

ترکی اور امریکہ کے درمیان سرد مہری کا آغاز اس سال کے آغاز سے ہوا۔ اب تک ترک لیرا کی قیمت چالیس فیصد کمی ہو چکی ہے۔ ٹرمپ کے ترک مخالف اعلان کے بعد ترکی کی کرنسی کی قیمت میں ایک دن میں 20% کے لگ بھگ گراوٹ دیکھی گئی ہے جس سے ترکی کی معیشت کو شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں ترکی کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے قطر نے 145 ارب ڈالر کی سرمایہ داری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی طرف سے قطر پر معاشی اور تجارتی پابندیوں کے دوران ترکی نے قطر کے ساتھ تجارتی اور معالیاتی تعلقات برقرار رکھے اور اسے خوراک اور دیگر ایشیا کی قلت سے بچانے کے ساتھ اپنے فوجی دستے بھی بھجوائے تھے۔




صرف 13 گھنٹے میں ترک کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 10 فیصد گر گئی، اور اس کی وجہ اردوان کی ایک تقریر اور ٹرمپ کی ایک جوابی ٹویٹ بنے:






امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ترکی امریکن پادری کو رہا نہیں کر رہا

جاری صورتحال میں ترکی کی کرنسی کی ویلیو میں مزید کمی ہو سکتی ہے جس سے یورپی مالی منڈیوں میں بھی بے چینی دیکھائی دیتی ہے۔ علاقائی بینکنگ سیکٹر پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے شدید دباؤ کے باوجود ترکی امریکن پادری کو رہا نہیں کر رہا ہے۔ ترکی کی کرنسی کو پہنچنے والے نقصان پر ترک صدر نے کہا کہ امریکہ کو ان کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی ہے؛ وہ ڈالر کے ذریعے اس کو نیچا دیکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکہ کی جانب سے موصولات کو دگنا کرنے کے اعلان کو جرمنی اور اٹلی نے WTO کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان اعلانات کے بعد ترکی نے روس کے ساتھ تعلقات مزید مضبو ط بنانے کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ شام میں کرد فورسز کو مضبوط کر رہا ہے۔

ترکی میں گرفتار شدہ امریکی پادری اینڈریو برونسن


یاد رہے حالیہ انتخابات میں صدر اردوان کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم کا عہدہ ختم ہونے کے بعد سے اب وہ طاقتور ترین صدر بن گئے ہیں جنہیں اب ترکی کا نیا سلطان کہا جا رہا ہے اور طاقتور اسلامی لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ وہ امریکہ اور اسرائیل کیخلاف سخت بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کرنے والا دہشت گرد ملک بھی قرار دیا تھا۔ امریکی بمباری کے نتیجے میں فسلطینیوں کی شہادت پر اسرائیل کے سفیر کو ملک بدر کرنے حکم دیا تھا۔

امریکہ اور اسرائیل کا اردوان کے خلاف مشترکہ محاذ، اور قطر سے تعلق منقطع نہ کرنے کی سزا

امریکہ اور اسرائیل طیب اردوان کی کامیابی سے خوش نہیں ہیں۔ اس لئے وہ ایران کی طرح ترکی پر پابندیاں لگانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تاکہ اس کی معیشت کو تباہی سے دو چار کر دیا جائے، جس سے ترکی کے صدر کی مقبولیت عوام میں کم ہو جائے۔ امریکی کانگریس ترکی پر دباؤ بڑھانے کی خاطر S-35 لڑاکا طیاروں کے سودوں کو منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ترکی کے ساتھ امریکی رویہ اور پابندیاں پاکستان کے لئے ایک سبق ہے۔ وہ پاکستان میں قید امریکی ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر سخت شرائط عائد کروا سکتا ہے۔

لیکن کیا تمام اتحاد مل کر بھی امریکی معیشت کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟

ترکی آج امریکی پادری کو رہا کرنے کا اعلان کر بھی دے تو تعلقات میں ماضی جیسی گرمجوشی پیدا نہیں ہو سکتی۔ امریکہ کے داخلی معاشی بحران کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی جی ڈی پی کا عالمی معیشت میں حصہ 24% ہے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو اس کے 11۔2 ٹرلین ڈالر کے مقابلے میں امریکہ کا جی ڈی پی 11۔5 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ اس کی آبادی چین کی آبادی کی چوتھائی کے برابر ہے۔ امریکہ کے عسکری اخراجات دنیا کے سات بڑے ممالک سے زیادہ ہیں۔ ان اتحادوں میں امریکہ کو نیچا دیکھانے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی بتدریج معاشی قوت کھوتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا امریکن نیشنل ازم اور تحفظاتی تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو کریں گی مگر یہ مستقل نہیں ہوگا۔ اس کے تضادات اور مسائل بڑھنے سے پورے عالمی نظام کو خدشات لا حق ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں نئے نئے تجارتی بلاک بن رہے ہیں۔ ان میں فرانس، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کا نیم فوجی اتحاد بھی موجود ہے۔ یورپی یونین اور چین علیحدہ علیحدہ بلاک بنا رہے ہیں۔ برکس ممالک کا اقتصادی اور تجارتی اتحاد چل رہا ہے، جس میں برازیل، چین، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان اتحادوں کے باجوود بھی امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے جس کو سر دست کوئی چیلنج در پیش نہیں ہے۔
مزیدخبریں