پی ٹی وی میں سرمایہ کاری 2004 میں ہوئی،کیمروں کے سپئیر پارٹس نہیں ملتے: ایم ڈی پی ٹی وی

12:43 PM, 27 Aug, 2020

عبداللہ مومند
ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس  چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی جانب سے 15جولائی 2020کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پی ٹی وی بولان چینل کی بندش کے حوالے سے ایم ڈی پی ٹی وی نے بتایا کہ سارے چینلز کی ری وپمنگ ہو رہی ہے۔ جس کیوجہ سے بعض پروگرامز آگے پیچھے ہو ئے ہیں۔ پی ٹی وی بولان بند ہونے کے حوالے سے بتایا گیا کہ پی ٹی وی بولان بند نہیں ہوا۔ مالی وسائل کی وجہ سے تمام سینٹر سے کچھ پروگرام ڈراپ کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی میں آخری دفعہ سرمایہ کاری 2004میں کی گئی تھی۔ کیمروں اور دیگر آلات کے مارکیٹوں سے سپیئر پارٹس نہیں ملتے کیونکہ کمپنیوں نے بندکر دیئے ہیں۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پی ٹی وی کوئٹہ سے بڑے بڑے فنکار پیدا ہوئے ہیں پی ٹی وی پورے ملک کی نمائندگی کرے اور صوبوں کو یکساں اہمیت دے۔ کرنٹ افیئرز کے پروگرامز میں بلوچستان کے نمائندوں کو بھی بلانا چاہئے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی جانب سے 8جون 2020کو سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے پاکستان الیکٹرونک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مختلف ٹی وی چینلز ملازمین کو ہائر کر لیتے ہیں مگر دو، دو سال تک ان کو تنخو اہیں نہیں ملتی دنیا بھر میں قواعد و ضوابط کے تحت لوگوں کو ہائر کیا جاتا ہے اور اُ نکی مناسب مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے بتایا کہ اگر کسی چینل کے ملازمین کو اُس کی انتظامیہ کے ساتھ مسئلہ ہو تو اُس کو دیکھا جاتا ہے اور دیگر شکایات کوو کونسل آف کمپلینٹس میں بھیج دیا جاتا ہے جس میں سول سوسائٹی کے لوگ ہوتے ہیں سول سرونٹ نہیں ہوتے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پیمرا ایک ریگولیٹری باڈی ہے جس کو کچھ ٹولز دیئے گئے تھے اُس نے آزادی رائے کو برقرار رکھنے کی بجائے کچلنے کی کوشش کی ہے۔ پرائیویٹ چینلز جن کو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں پیمرا اپنی من مانی کرتے ہوئے اُن کے نمبر تبدیل کردیتا ہے اور کیبل آپریٹر سے کچھ چینلز کو بند بھی کرایا جاتا ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پیمرا معمولی جرمانہ کر سکتا ہے چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ میڈیا کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے تا کہ لوگ مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو انڈسٹری کا درجہ دینے سے ملک میں صحافیوں، پروڈیوسرز، آرٹسٹ کو عالمی معیار کا کام کرنے کا موقع ملے گا۔ سینیٹر فیصل جاوید نے وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو آئندہ اجلاس میں میڈیا کو انڈسڑی کا درجہ دینے کے حوالے سے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دینے کی ہدایت کردی۔ قائمہ کمیٹی نے پاکستان الیکٹرونک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل 2020 کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

 

قائمہ کمیٹی نے سینیٹر جاوید عباسی کی جانب سے 13جولائی 2020کو منعقدہ سینیٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے پریس کونسل آف پاکستان ترمیمی بل 2020ء کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے ترمیم کے ساتھ بل کی متفقہ طور پر منظور ی دے دی۔ قائمہ کمیٹی نے پریس کونسل پاکستان کے چیئرمین کے لئے ریٹایرڈ سپریم کورٹ جج کی تعیناتی کی بجائے میڈیا،قانون یا سوشل سائنٹسٹ کو کونسل کا چیئرمین بنانے کاا ہل اور پانچ سال کا تجربہ عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 60 سال مقرر کرنے کی منظوری دی اور پریس کونسل میں دو ممبران ایوان بالاء کہ ممبران میں سے مقرر کرنے کی شق بھی منظورکی گئی۔
کمیٹی نے کہا نے کہا کہ پی ٹی وی اسپورٹس پر دس دس گھنٹے اینکرز تنقید کر رہے ہوتے ہیں تنقید کرنے کی بجائے سپورٹس چینل پر سپورٹس دیکھانی چاہئے۔

انہوں نے پی ٹی وی اسپورٹس پر چلنے والے تجزیوں کو غیر معیاری اور غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس کو پی سی بی یا کسی بھی سپورٹس کے ادارے کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ تجزیہ کار پی ٹی وی سپورٹس پر بیٹھ کر کسی بھی کھلاڑی کو زیرو بنا دیتے ہیں۔ پی ٹی وی سپورٹس پر تجزیوں کی بجائے کھیل دیکھائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے یہ بھی کہا تھا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کی کارروائی ریکارڈ کی جائے مگر اُس پر بھی عمل نہیں ہوا اس کا بھی حل نکالا جائے۔

 
مزیدخبریں