عمران خان سے کوئی بات چیت نہیں، جو کیا ہے اس کی سزا ملنی چاہیے: نواز شریف کی سہیل وڑائچ سے گفتگو

عمران خان سے کوئی بات چیت نہیں، جو کیا ہے اس کی سزا ملنی چاہیے: نواز شریف کی سہیل وڑائچ سے گفتگو
مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نہ وزیراعظم شہباز شریف کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور نہ ہی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی کارکردگی سے بلکہ نواز شریف چاہتے ہیں کہ شہباز شریف اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔

یہ کہنا تھا سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ جو چند دن پہلے ہی لندن سے واپس آئے ہیں۔ لندن میں قائد مسلم لیگ ن نواز شریف سے ملاقات کر کے وطن واپس لوٹنے والے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نواز شریف معاشی پالیسیوں سے بالکل مطمئن نہیں اور وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی کارکردگی انہیں بالکل نہیں بھا رہی۔

جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف نے بار بار کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ حکومت نہ لیں اور الیکشن کی طرف جائیں، ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف نے ذہن بنا لیا ہے کہ اگر کوئی معاشی پالیسی وہ چاہتے ہیں تو وہ اسحاق ڈار ہی کے ذریعے ہوگی، وہ مفتاح اسماعیل پر اعتماد نہیں کر رہے اور سمجھتے ہیں کہ وزیرخزانہ کو معاشی پالیسیوں کا اتنا علم نہیں۔

"میاں صاحب نے مجھے کئی بار یہ بھی کہا کہ آپ خود شہباز صاحب سے مل کر انہیں سمجھائیں کہ حکومت کے معاملات کیسے بہتر کیے جا سکتے ہیں۔"

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نواز شریف تحریک انصاف سے مذاکرات پر آمادہ نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے جو کیا ہے اس کی سزا انہیں ملنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی مذاکرات یا سیاسی حساب کتاب ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ ان کا اپنا ہی بویا ہوا ہے۔ شہباز گل پر ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں یہ خود کیا کرتے تھے اب ان کا کیا حال ہو گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز حکومت اچھا پرفارم نہیں کر رہی پر وہ عمران خان کو بھی کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ وہ عمران خان کو اپنا سب سے بڑا حریف اور فاشسٹ سمجھتے ہیں، چاہتے ہیں پہلے اس فاشسٹ سے نمٹ لیں باقی معاملات پھر دیکھ لیں گے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف پاکستان جیل جائے بغیر آنا چاہتے ہیں، واپس آ کر وہ یہ بیانیہ بنائیں گے کہ عدالتوں نے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف اپنے کیسز نہ سنے جانے پر اور ان کے جو معاملات لٹکے ہوئے ہیں اس پر کوئی بڑا ایکشن لینے والے ہیں۔ وہ براہ راست سپریم کورٹ کو خط لکھ سکتے ہیں، ان کا مؤقف ہوگا کہ دوسروں کے لئے تو عدالتیں رات کو کھل جاتی ہیں میری ایک عرضداشت بھی نہیں سن رہے۔ یہی ان کا آئندہ بیانیہ ہوگا جس میں وہ کہیں گے کہ ان سے انصاف نہیں ہوا اور سب کچھ عدالتوں نےکیا ہے۔ پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ دونوں کو ملا کر بیانیہ بنایا کرتے تھے، ایسا لگتا ہے کہ اب ان کا اگلا بیانیہ عدلیہ اور چند ججز کے خلاف ہوگا، اسی پر وہ سیاست کرنا چاہیں گے۔

مریم نواز کے حوالے سے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کی کارکردگی سے وہ بہت مطمئن ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ جو میں کہتا ہوں مریم وہ کرتی ہیں۔ سہیل وڑائچ کے مطابق نواز شریف اور مریم ایک پیج پر ہیں اور شہباز شریف اور حکومت الگ پیج پر ہیں۔

شاہ زیب خانزادہ کا پروگرام آن ائیر ہونے کے فوری بعد نواز شریف نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے سہیل وڑائچ کی گفتگو سے بنائی گئی تمام خبروں کی تردید کر دی اور کہا کہ ان سے منسوب باتیں بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’شہباز شریف کے بارے میں مجھ سے منسوب کیے گئے منفی کمنٹس گمراہ کن اور بے بنیاد ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ انتہائی مشکل حالات میں شہباز شریف کی مخلصانہ اور انتھک کوششیں رنگ لائیں گی اور وہ عمران خان کے پیدا کردہ بحران سے ملک کو نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔'

اس بات پر گذشتہ روز شاہزیب خانزادہ نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے سوال کیا کہ نواز شریف آپ سے مطمئن نہیں۔ خود اپنے رہنما ہر دوسرے دن آپ کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ کیوں آپ کی جماعت پہلے سے کمزور معیشت کو غیریقینی سے دوچار کر رہی ہے؟ کیوں آپ کو رکھنے یا اسحاق ڈار کو لانے کا فیصلہ نہیں کر لیتے؟

اس پر جواب دیتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ یقیناً اس مہنگائی سے میاں نواز شریف سمیت کوئی بھی خوش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا عابد شیر علی سمیت تمام لوگوں کو حق ہے کہ وہ میری پالیسیوں پر سوال کریں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ میرا ایسا کون سا فیصلہ ہے جو شہباز شریف اون نہیں کرتے یا شہباز شریف کا کوئی ایسا فیصلہ ہے جو میں اون نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا میں جو بھی فیصلہ کرتا ہوں اس پر شہباز شریف کے دستخط ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ میں نے سخت فیصلے ضرور کیے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی میں نے نہیں کیا لیکن تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔