ابتدائے آفرینش سے تین دریافتوں نے ہماری تاریخ پر بہت اہم اثرات مرتب کیے ہیں: جوہر کی دریافت، ڈی این اے کی جینیات اور پھرکمپیوٹر کی بائنری لسانیات۔ اب تک سائنسی فکر پر ڈارون کے فطری چناؤ کا نظریہ غالب تھا۔ لیکن جینیاتی انجینیرنگ کی اہلیت نے ’ذہین ساخت (intellectual design) کو فطری چناؤ پر حاکمیت دے دی ہے۔ یہ ایک بہت اہم فقرہ ہے۔ ڈارون کے مخالفین ذہین ساخت کا سہرا اپنے عقائد کے مطابق کسی خدا کے سر باندھتے رہے ہیں۔ اب بشر خود قدرتی ساخت کو اپنی ضرورت و ذہانت کے اعتبار سے تبدیل کرنے کا اہل ہے۔ انالحق کا یہ موڑ ہمارے بنیادی ایقان و سمجھ بوجھ پر ضرب لگا تا ہے۔ اور یہ تو محض ابتدا ہے۔
یہ کتاب Sapiens لاکھوں برس پہلے انسان کی آمد سے اس موڑ تک پہنچنے کا سفر ہے۔ اس موڑ پر پہنچ جانا ایک بات ہے، اس سے آگے کا سفر ایک اور ہی کہانی ہے جسے ہراری ہمارے فکری اور تصوراتی رویوں کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں شاید اس بات کا ادراک نہ ہو کہ جینیاتی انجینیئرنگ اور کمپیوٹر کا الحاق کیا گل کھلا رہا ہے۔ ایک دعویٰ جو اکثر دہرایا جا رہا ہے اور اس کتاب کی بھی زینت بنا ہے، وہ یہ کہ 2050 کے بعد ہم اس بات پر قادر ہوں گے کہ چاہیں تو انسان صرف حادثاتی موت مر سکے۔ اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں ہے، کیچوے کی عمر میں چھ گنا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے خونی ذرات پیدا کیے جا رہے ہیں جو جسم میں داخل ہو کر شریانوں کی رکاوٹ، جراثیم کا خاتمہ اور سرطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دل، گردے اور پھیپھڑوں کے مشینی نعم البدل موجود ہیں۔ چوہے کی پشت پر انسانی کان اگایا گیا ہے۔ ہتھنی کے رحم میں قدیم میمتھ جانور کے ڈی این اے سے اسے دوبارہ زندہ کرنے کا ارادہ ہے۔
یہ تمام امثال اس کتاب میں معہ حوالوں کے موجود ہیں۔ جیوراسک پارک اب محض فکشن نہیں رہ جائے گا۔ کتاب کا سب سے اہم باب سب سے آخری ہے کہ اب ہم یہاں تک تو آ گئے ہیں، اب یہاں سے کہاں جائیں۔ جس طرح جانوروں کی مختلف نسلیں ہوتی ہیں، مثلاً کتوں میں ایلسیشن، بل ڈاگ، پوڈل، جرمن شیپرڈ، اسی طرح انسانوں کی بھی مختلف اقسام تھیں۔ نینڈرتھال، ہومو ایرکٹس، ہومو سیپیئن وغیرہ۔ ہم یعنی ہومو سیپیئن سب کو مٹا کر اپنی نوع کی واحد مثال رہ گئے ہیں۔ اب اگر ہم خود اپنے سے بہتر قسم پیدا کر دیں، جس کی ذہانت فراواں ہو، یادداشت کامل ہو اور بڑھاپے کی علت سے مبرا ہو، جس کے دست و بازو بایونک ہوں تو یہ سپر مین ہماری نسل کی جگہ لے سکتا ہے۔
یہ ایک اندھی باؤلی کی جانب نابینا کا سفر ہے۔ ہریری ہمیں اس کتاب میں ٹھہر کر غور و فکر کی یاد دلاتا ہے کہ کہیں فرینکسٹائن کا فکشن حقیقت نہ بن جائے۔
مغرب میں نان فکشن پر بہت کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ ان میں عام دلچسپی کے سائنسی مضامین پر کتابیں ہیں۔ جو کتابیں قبولیت عام حاصل کرتی ہیں ان میں قدر مشترک بیانیہ کی سہولت، تحقیق اور پر لطف انداز بیاں ہے۔ The emperor of all maladies, an intimate history of Gene, Welcome to the universe, Sapiens وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے کامیاب ہم عصر لکھاریوں کی طرح ہریری کی تحریر میں اس کا وسیع مطالعہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس موضوع پر دوسری ہزاروں کتابوں کے مقابلے میں اس کتاب کی کامیابی کی ایک وجہ شگفتہ انداز بیان ہے۔ یہی وصف جنوبی امریکہ میں فکشن لکھنے والوں کی کامیابی کی سند ثابت ہوا۔
نان فکشن کے خشک موضوعات کے لئے تحریر کی شگفتگی اور زیادہ اہم ہے کہ کڑوی گولی شہد میں لپٹی ہو تو زیادہ آرام سے نگلی جا سکتی ہے۔ کتاب کو بہت شعوری کوشش سے غیر متعصبانہ رکھا گیا ہے۔ تاریخ بشریات ایک خطرات سے پر میدان ہے۔ اس میں سلطنتیں، ریاستیں، زبانیں، مذاہب سب ہی زیر بحث آئے ہیں۔ لہٰذا امکان تھا کہ مصنف کا قدم کسی بھی بارودی سرنگ پر پڑ سکتا تھا۔ بہر حال اس شعوری کوشش میں جہاں لسانی، مذہبی، و نسلی تعصب کے ضمن میں امریکیوں اور نازیوں کا تذکرہ ہے، وہاں فلسطینیوں کی بات نہیں ہوتی، جو ایک کھلے آسمان والے زندان میں اسی تعصب کے گذشتہ ستر برسوں سے قیدی ہیں۔
کتاب مدلل انداز میں لکھی گئی ہے۔ بات کو پر اثر بنانے کے لئے مناسب تصاویر اور تشبیہات نے اسے اور مؤثر بنا دیا ہے۔ لیکن یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اکثر ابواب میں تشنگی کا احساس رہ جاتا ہے۔
کتاب کا آغاز انسانی اہلیت میں انقلاب سے ہوتا ہے۔ وہ کیا وجہ تھی کہ اچانک تقریباً ستر ہزار سال پہلے ہماری ترقی کو مہمیز ملی؟ گو انسان پچیس لاکھ سالوں سے موجود رہا ہے، لیکن پہلے چوبیس لاکھ سالوں کی ترقی کا موازنہ آخری ستر ہزار برسوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ ہماری اہلیت کی بیداری ہے۔ ہراری کے مطابق دوسرا اہم موڑ دس ہزار سال پہلے زرعی انقلاب کی شکل میں آیا جب گندم نے انسان کو اپنا غلام بنا لیا۔ انسان شکاری و متلاشی بود و باش چھوڑ کر گندم کی غلامی میں پالتو ہو گیا۔ تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہراری نے سلطنتوں کے عروج و زوال پر بحث کی ہے، لسانیات کی کھوج میں نکلا ہے۔ اپنی کتاب میں وہ سفید فاموں کے تعصب، جبر اور توسیع پسندی کی تاریخ رقم کرتا ہے، تو ساتھ ہی چینیوں، ہندوستانیوں اور مسلمانوں کو پندرھویں صدی اور اس کے بعد خواب غفلت کا بھی طعنہ دیتا ہے۔
سیپینز میں قوموں کے عروج و زوال کے معاملات جس طرح بیان ہوئے ہیں، اور تعصب و تنگ نظری کے نقصانات کا جو تذکرہ ہے وہ ہماری ریاست کے لئے بالخصوص دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔ ہمارے تمام منتخب نمائندوں کے لئے یہ کتاب لازمی مطالعہ قرار دیا جائے۔ اسے محض داخل نصاب کرنے سے کام نہیں بنے گا، کیونکہ اس سے کچھ منتخب نمائندوں کے بچ نکلنے کا امکان ہے۔
انسان اس خلاق اعظم کی ناول کا سب سے پیچیدہ کردار ہے۔ اب یہ کردار خود اپنی ناول تخلیق کر رہا ہے۔ ہراری ہمیں خبردار کرتا ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ یہ کتاب ایک لازمی مطالعہ ہے۔