پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی مارشل لا کے خلاف عدالت میں جایا گیا تو اعلیٰ عدالت نے مارشل لا کے حق میں فیصلہ دیا۔ پاکستان میں عدلیہ اور غیر جمہوری قوتوں کے گٹھ جوڑ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سب سے پہلے جسٹس منیر نے تمیز الدین کیس میں پاکستان میں پہلی بار نظریہ ضرورت متعارف کروایا اور یہ سلسلہ پرویز مشرف کے مارشل لا تک جاری رہا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ساری عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا۔ ہمیں عدلیہ میں بہت سارے ایسے جج ملتے ہیں جو ہر قسم کی دھمکیوں اور لالچ کے باوجود غیرجمہوری اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
ہم نے دیکھا کہ سب سے پہلے آمر حکمرانوں نے عدلیہ پر حملہ کیا، ججوں سے نیا حلف لیا اور غیرآئینی حلف نہ لینے والے ججوں کو عدلیہ سے نکال دیا۔ ایسی صورت حال بھی بنی کہ ججوں گرفتار یا گھر میں نظر بند کر دیا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں گو ایوب خان اور یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا مگر ان کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد۔
پرویز مشرف سب سے نرالے حکمران تھے۔ انہوں نے نہ صرف نواز شریف کی آئینی حکومت کو برطرف کیا بلکہ جب اس وقت کے چیف جسٹس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کیا تو اسے نظر بند کر دیا۔ بہرحال یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بعد میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف حکومت کو جائز قرار دے دیا تھا۔ اس طرح مشرف اور عدلیہ میں معاملات ٹھیک سمت میں چل رہے تھے مگر پھر آمر کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے چیف جسٹس چوہدری افتخار کو اپنے آفس میں بلا کر استعفیٰ مانگ لیا، جس سے چیف جسٹس نے انکار کر دیا۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ پاکستان کے چیف جسٹس کو ایک تھانیدار سر کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے۔ یہاں سے پاکستان کی تاریخ اور عدلیہ کا نیا اور روشن باب شروع ہوتا ہے۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ کس طرح سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے عمل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر چیف جسٹس چوہدری افتخار کو بحال کروایا۔ پھر مشرف نے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسڑیٹر ملک میں ایک دفعہ پھر آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی لگا دی۔ نیا حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو گرفتار کر لیا۔ چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد کی جگہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس بنا دیا۔ وکلا کی تاریخی جدوجہد کے نتیجہ میں مشرف کو وردی اتارنی پڑی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی، پھر چوہدری افتخار محمد اور دوسرے جج صاحبان بحال ہو گے۔
چوہدری افتخار محمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو بلایا مگر وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ جب پرویز مشرف نواز شریف کے زمانے میں واپس آئے تو ان کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کی تحت غداری کا مقدمہ دائر ہو گیا۔ پھر وہ جیل جانے کے بجائے سی ایم ایچ پہنچ گئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔
پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے ایک خصوصی عدالت قائم کر دی گئی جس نے مشرف کو کیس کے دفاع کے لیے کئی بار بلایا۔ ایک موقعہ پر چیف جسٹس آف پاکستان نے مشرف کو کہا کہ وہ بیان ریکارڈ کروائیں انہیں کوئی گرفتار نہیں کرے گا۔
قصہ مختصر مشرف اپنے دفاع کے لیے پاکستان نہیں آئے اور آخرکار عدالت نے انہیں مفرور قرار دے کر مقدمہ ان کی غیرحاضری میں چلانے کا فیصلہ کیا۔ جب اس کا تفصیلی فیصلہ آیا اور جسٹس سیٹھ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے پرویز مشرف کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں لٹکانے کا لکھا تو سابق صدر کے حامیوں کو اس پر مزید تنقید کا موقعہ مل گیا۔
میں یہاں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں اصولی طور پر پھانسی کی سزا کے خلاف ہوں مگر خصوصی عدالت کی فیصلہ کی مکمل حمایت کرتا ہوں کیونکہ ملک میں پہلی بار کسی عدالت نے ملک کا آئین توڑنے والے کو سزا دی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملامت میں 3 سالہ توسیع کے بارے میں مختصراً یہ عرض ہے کہ سپریم کورٹ نے سرکار کے ساتھ نرمی برتی ہے اور اسے 6 ماہ میں قانون بنانے کے لیے مہلت دے دی ہے، ورنہ وہ اس توسیع کو رد بھی کر سکتی تھی۔ چیف جسٹس کھوسہ کے ریٹائرمنٹ کے بعد اب سرکار نے بمعہ آرمی چیف کے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔