ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم گذشتہ اکتالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں۔ پاکستان میں جو متشدد رویے پیدا ہو چکے ہیں، ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ یہ رویے مولوی حضرات کے پیدا کردہ نہیں ہیں، جسے ہم ہر وقت کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔
مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم سے غلطیاں نہیں ہوئیں۔ سیاسی اور مذہبی رہنمائوں جبکہ میڈیا سے وابستہ لوگوں سمیت ہر کسی سے غلطیاں سرزد ہوئیں، ہم معصوم نہیں ہیں۔ غلطیوں سے سیکھنا اور اپنی اصلاح کرنا ہی اللہ کا بندہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قیام اس لئے ہوا تھا کیونکہ اس کو مدینہ منورہ کی طرح ایک فلاحی ریاست بننا ہے۔ وہ ریاست جہاں پر کوئی کسی اقلیت پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ جہاں اکثریت سے زیادہ اقلیتوں کے حقوق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے مواحد کے ساتھ کوئی ظلم یا زیادتی کی تو اس کی طرف سے قیامت کے روز میں پیش ہوں گا۔ ان کا کہنا ایک ہمارے ہاں مواحد وہ مظلوم سری لنکن بھی تھا جسے ان لوگوں نے مار دیا جنھیں ٹھیک طرح سے کلمہ بھی پڑھنا نہیں آتا تھا۔ مجھے جواب دیا جائے کہ کیا ان لوگوں کو جوابدہ نہیں ہونا پڑے گا؟
مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ہم جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جب ولادت کا ہم اعتراف کر لیتے ہیں تو پھر ان کی عبدیت کا بھی اعتراف ہو جاتا ہے۔ تو کیا حضرت عیسیٰ پر ہمارا ایمان نہیں ہے؟ اگر ہم ان پر ایمان نہ لائیں تو ہم مسلمان ہی نہیں ہو سکتے۔ ان کی پیدائش کے موقع پر کسی کو مبارک دینا کوئی جرم نہیں ہے لیکن اس معاملے کو بھی غلط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔