لاہور ہائی کورٹ میں رواں ماہ 24 فروری کو عورت مارچ کے خلاف جوڈیشل ایکٹیوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیقی نے درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ مارچ کو روکنے کا حکم دیا جائے، اظہر صدیقی کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ ملک میں انتشار اور عریانیت پھیلانے کے لیے عورت مارچ کو ریاست مخالف تنظیمیں اور پارٹیاں فنڈز فراہم کر رہی ہیں۔
عدالت میں دائر کردہ درخواست میں عورت مارچ کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے خفیہ منصوبے سے بھی تشبیہ دی گئی تھی اور ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ اس مارچ کا مقصد عریانیت پھیلانا ہے۔ درخواست میں وکیل اظہر صدیقی نے لکھا تھا کہ گذشتہ سال ہونے والے عورت مارچ کے شرکا نے قابل اعتراض پیغامات والے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔
اظہر صدیقی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے اور پولیس کو 27 فروری کو طلب کرتے ہوئے وضاحت مانگی تھی۔ آج ہونے والی سماعت میں ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالرب اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور عدالت میں پیش ہوئے جب کہ درخواست گزار اظہر صدیقی سمیت عورت مارچ کے حق میں وکلا حنا جیلانی اور نگہت داد بھی پیش ہوئیں۔
اظہر صدیقی کی درخواست پر چیف جسٹس مامون الرشید کی سربراہی میں قائم بینج نے سماعت کی جس دوران عورت مارچ کے حق میں دلائل دینے والی وکیل حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ وہ عورت مارچ صرف خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ حنا جیلانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس بار عورت مارچ اتوار والے دن یعنی عام تعطیل کے دن پر منعقد ہوگا جس سے ملکی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
عورت مارچ کے خلاف درخواست دائر کرنے والے وکیل اظہر صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کا مقصد عورت مارچ رکوانا نہیں ہے، اس ضمن میں پچھلے سال کے عورت مارچ کے پوسٹرز دیکھیں اور اندازا لگائیں کہ کیا ہوا تھا۔ اظہر صدیقی کے دلائل کے بعد حنا جیلانی نے عدالت سے سوال کیا کہ درخواست گزار کا عورت مارچ سے کیا تعلق ہے اور وہ کیوں اس کی تشہیر پر سوشل میڈیا میں پابندی چاہتے ہیں۔
عدالت نے عورت مارچ کی سیکیورٹی کے حوالے سے پولیس سے استفسار کیا کہ انہوں نے عورت مارچ کی سیکیورٹی کے کیا انتظامات کیے ہیں؟ جس پر حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ سال بھی عورت مارچ پر امن ہوا تھا اور اس بار بھی پر امن ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت صرف سرکاری اداروں کا مؤقف جاننا چاہتی ہے اور اسی لیے پولیس اور ایف آئی اے عورت مارچ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سوشل میڈیا پر بھی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں ہونے چاہیے۔
خیال رہے کہ اس سال بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے لاہور کے علاوہ، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے بڑے اور اہم شہروں میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ’ عورت مارچ‘ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
گذشتہ سال پہلی بار پاکستان کے مختلف شہروں میں ’ عورت مارچ‘ منعقد ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں خواتین و لڑکیاں شامل ہوئی تھیں۔ کراچی سے لے کر لاہور اور اسلام آباد سے لے کر حیدرآباد تک ہونے والے عورت مارچ میں خواتین نے درجنوں منفرد نعروں کے بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں کچھ متنازع بینر بھی شامل تھے جن کی وجہ سے عورت مارچ پر تنقید بھی کی گئی۔