کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔۔۔قومی کرکٹ ٹیم کے زوال کی کہانی !

آج کی قومی کرکٹ ٹیم کوچیمپئن ٹرافی کی صورت تاریخی موقعہ ملا تھا مگرکھلاڑیوں نے اسے ، ذاتی اختلافات اور سیاست کی بھینت چڑھا دیا ،ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کا سفر اختتام کو پہنچا اس وقت کرکٹ شائقین شدید مایوسی کا شکار ہیں ان کے دل ٹوٹ چکے ہیں ، جنہیں کبھی یہ عوام ”کنگ “ کے ناموں سے پکارتی تھی آج انہی کی گھر واپسی کا مطالبہ کررہی ہے ، پاکستان کرکٹ کو شاید 1999 کی ورلڈ کپ شکست کے بعد یہ سب سے بڑا دھچکہ لگاہےاب سنبھلنے میں وقت لگے گا

02:46 PM, 27 Feb, 2025

ارسلان سید

29سال کے بعد پاکستانی قوم کو آئی سی  سی چیمپئن ٹرافی کی میزبانی ملی ، مگر چیمپئن ٹرافی کے میزبان ہوتے ہوئےقومی ٹیم نے25کروڑ عوام کو ایک ایسا دھچکہ دیا ہے جو شاید یہ قوم کبھی نہ بلا سکے گی ۔ انڈیا کیخلاف  کرو یا مرو نوعیت کے میچ میں کپتان محمد رضوان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن نہایت مایوس کن کارکردگی دکھاتے ہوئے پوری ٹیم آخری اوور میں  صرف 241رنز  کرنے کے بعد ڈھیر ہوگئی جس میں سوائے سعود شکیل کے کوئی کھلاڑی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکا ۔ کپتان محمد رضوان جنہوں نے میچ کے بعد پریس کانفرنس  میں نہایت  سطحی باتیں کیں، اس میچ میں 77گیندیں کھیلنے کے بعد 46رنز ہی بناسکےتھے ۔جواب میں انڈیا نے 42 ویں اوور میں ہی میچ ختم کردیا یہ ایک یکطرفہ مقابلہ تھا ، تاہم اس میچ کی سب سے یادگار پرفارمنس کرکٹ کے لیجنڈ کھلاڑی ویرات کے نام رہی  جنہوں نےناقابل شکست اور یاد گار سنچری سکور کرنے کیساتھ بھارٹی ٹیم کو میچ بھی جتواکردیا ۔ 

ویرات کوہلی ون ڈے کرکٹ کی 287اننگرز میں 14ہزار رنز بنانے والےدنیا کے سب سے تیز ترین بیٹسمین بن گئے ہیں(جبکہ سیچن ٹینڈولکر  نے 14ہزار رنز 350انگرز کھیلنے کے بعد بنائے تھے) ۔ ویرات کوہلی نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ موجودہ کرکٹ میں وہ واقعی  کنگ ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ویرات کی حالیہ کچھ میچوں میں کارکردگی خراب تھی لیکن انہوں نے ایک اہم میچ میں ٹیم انڈیا کیلئے شاندار اننگز کھیل کر مکمل فارم میں واپسی ہوئی ہے جس کا فائدہ یقیناً اس چیمپئن ٹرافی میں ٹیم انڈیا کوہونیوالا ہے ۔ اگر ہمارے نام نہاد ”کنگ “ کو سیکھنا ہے تو ویرات کوہلی سے سیکھیں کہ کیسے اپنی ٹیم کیلئے کھیلا جاتا ہے !

لیکن دوسری طرف پاکستان ٹیم کا المیہ یہ  ہے کہ یہاں  کھلاڑی آپس میں صرف کپتانی کیلئے لڑ رہے ہیں انھیں اسکی کوئی پرواہ نہیں کہ اسکا ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر کیا اثر پڑتا ہے ۔پاکستان کو 3 دہائیوں کے بعد آئی سی سی کا ایونٹ نصیب ہوا اس دوران پاکستان کرکٹ میں  بڑے بڑے نام آئے اور چلے گئے  جنہوں نے عالمی کرکٹ میں اپنا بنام بنایا ۔ ان میں سب سے اوپر   وسیم اکرم ، وقار یونس، شاہد آفرید ی اور پھر  شعیب اختر نمایاں تھے ۔ مگر ان تمام کھلاڑیوں کو  اپنے کیرئیر کے دوران کبھی بھی اپنی سرزمین پر آئی سی سی ایونٹ کھیلنا نصیب نہیں ہوا مگرچیمپئن ٹرافی کی صورت آج کی قومی ٹیم  کو یہ تاریخی موقعہ ملا تھا مگر انہوں نے اسے اپنی بے حسی، ذاتی اختلافات اور سیاست  کی بھینت چڑھا دیا ،چیمپئن ٹرافی میں پاکستان ٹیم کا سفر اختتام کو پہنچا اس وقت کرکٹ شائقین شدید مایوسی کا شکار ہیں ان کے دل ٹوٹ چکے ہیں ، جنہیں کبھی یہ عوام ”کنگ “ کے ناموں سے پکارتی تھی آج انہی کی گھر واپسی کا مطالبہ کررہی ہے ۔ پاکستان کرکٹ کو شاید 1999 کی ورلڈ کپ شکست کے بعد یہ سب سے بڑا  دھچکہ لگاہےاب سنبھلنے میں وقت لگے گا ۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سارے ہنگامے میں کپتان محمد رضوان نے پریس کانفرنس میں جن الفاظ کا چناؤ کیا ہے وہ پاکستانی کرکٹ شائقین  کے زخموں  پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے ۔ کہتے ہیں :”ہم باہر ہوگئے ہیں لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں ، پاکستان کی قسمت کا فیصلہ دوسری ٹیموں پر ہے “۔ اس طرح کے الفاظ شاید ہی کرکٹ ورلڈ میں کسی کپتان نے کہے ہوں جو محمد رضوان کے ہونٹوں سے نکلے ہیں ، ان الفاظ سے لگتا ہے کہ کپتان رضوان دماغ  سے خالی ہیں ۔ یہ وہی رضوان ہیں ( جن کے بارے  میں نے گذشتہ آرٹیکل میں بھی اشارہ کیا تھا کہ وہ” بڑی محنت“ کے بعد کپتانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ) لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ  عہدہ چھننے کے خوف میں وہ اس قدر آگے نکل جائیں گے کہ پاکستان ان کے نزدیک ثانوی حیثیت اختیار کرجائے گا ۔

  کپتان محمد رضوان کی انڈیا کیخلاف میچ ہارنے کے بعد متنازع ترین  پریس کانفرنس 

عاقب جاوید کی عجیب منطق !

ہیڈ کوچ عاقب جاوید کہتے ہیں کہ :” ہارنے کا مطلب یہ نہیں کہ پوری ٹیم تبدیل کرکے  انڈر 19ٹیم کو لے آئیں  “،ایسی منطق پیش کرنے سے بہتر ہے کہ ہیڈ کوچ اپنی پوزیشن سے استعفیٰ دیکر گھر جائیں ۔ مزید کہتے ہیں :” بابر کے سوا ہمارے پاس کون سا آپشن ہے؟تو جناب ہیڈ کوچ عاقب جاوید صاحب ! آپ نے بابر اعظم سے زبردستی اوپن کروا کر  اس کھلاڑی کیساتھ بھی زیادتی کی ہے ، بابر اعظم تیسری پوزیشن کا کھلاڑی ہے اسکے  پچھلے 5میچوں کی اوسط کا جائزہ تو لے لیتے ، اس سے رنز بن ہی نہیں رہے تھے  وہ خود بھی اس پریشر کو محسوس کررہا ہے  ۔ بابر اعظم نے ون ڈے میچوں کی  5اننگز میں صرف 17.60 کی اوسط سے 88رنز ہی اسکور کیے ہیں۔ بابر اعظم کی  بیٹنگ کو ون ڈاؤن کی پوزیشن سپورٹ کرتی ہے جہاں بابر اعظم نے 60.18کی اوسط سے 5ہزار سے زائد رنز اسکور کررکھے ہیں۔ اگر بابر اعظم نے ماضی میں  تیسری پوزیشن پر کھیلتے ہوئے ہی 5 ہزار سے زائد رنز اسکور کیے ہیں تو اس تناظر میں ہیڈ کوچ  عاقب جاوید کا یہ فیصلہ کہ بابر اعظم اوپئنگ کرنے کیساتھ چیمپئن ٹرافی میں ”بڑااسکور“ کرے گا ، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں تھا !

   ایک طرف چیمپئن ٹرافی سے باہر ہوجانے کے باوجود ابھی تک عاقب جاوید اپنی ضد پر قائم ہیں کہ :”ون ڈے میں 7 بیٹرز اور 4 بولرز کا کمبی نیشن کھلایا جاتا ہے، اور چونکہ صائم ایوب بیٹنگ کے ساتھ کچھ اوورز بھی کروا سکتے تھے، اسی لیے ان کی جگہ خوشدل شاہ کو ٹیم میں شامل کیا گیا“۔ تو دوسری طرف پوری دنیا چیخ رہی تھی کہ جہاں دنیا کی باقی ٹیمیں دو،دواسپیشلسٹ سپنرز کیساتھ میدان مین اتر رہیں وہیں  پاکستان نے کیوں ایک سپینر (ابراراحمد) کا انتخاب کیا، جس کا نتیجہ پاکستان ٹیم کو شکست کی صورت اٹھانا پڑا ہے ۔

   حقیقت یہی ہے چاہے ہیڈ کوچ عاقب جاوید اس سے ہزار اختلاف کریں کہ آپ نے چیمپئن ٹرافی 2025کیلئے سفارشیوں اور انجرڈ کھلاڑیوں کو شامل کیا ۔ خوشدل شاہ، فہیم اشرف اور عثمان خان کو بنگلہ دیشں پریمئر لیگ میں کارکردگی کی بنیاد پر ون ڈے  ٹیم میں شامل کیا گیا اور عثمان خان تو چیمپین  ٹرافی کےسکواڈ میں شامل ہونے سےقبل  ایک ون ڈےمیچ  تک نہیں کھیلے تھے ، یہ پرچی نہیں تو کیا ہے؟

  محمد رضوان کی پریس کانفرنس ۔۔۔ایک کرکٹر یہ الفاظ کبھی نہیں کہہ سکتا !

جن الفاظ کا چناؤ موجودہ کپتان محمد رضوان نے کیا ہے اسکے بعد  بورڈ کو نہ صرف ان سے فوری  کپتانی سے  ستعفیٰ لینا چاہئے بلکہ محمد رضوان پر پاکستان کرکٹ کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردینے چاہیں ، مجھے کم از کم امید ہے کہ اس بار جو  چیئرمین پاکستان کرکٹ کو ملا ہے وہ جانے سے پہلے ایک بار اس ٹیم کو سیدھا کرکے ضرور جائے گا ۔ اب کی بار کوئی چیئر مین محسن نقوی کے ریڈار سے نہیں بچ سکے گا ، تمام ”سٹار“کھلاڑیوں کی چھٹی کا وقت آن پہنچا ہے ، بس بورڈ اپنی عزت پچانے کیلئے ٹورنامنٹ کے اختتام کا منتظر ہے تاکہ دنیا میں تماشہ نہ بنے ورنہ  قومی  کرکٹ ٹیم میں شامل ان مخصوص5 سے 6 کھلاڑیوں کو لگتا ہے کہ بورڈ کو اس کی پرواہ نہیں !

کپتانی کی  جنگ ٹیم پاکستان کو لے ڈوبی !

پہلے بابر اعظم سے کپتانی لیکر شاہین شاہ آفریدی کو دینا اور پھر مختصر مدت کے بعد اچانک محمد رضوان کو اکتوبر2024میں ٹی ٹوئنٹی  اور ون ڈے کا کپتان مقرر کردینا ہی اصل میں قومی ٹیم میں گروب بندی اور ذاتی اختلافات کی وجہ بنا ہے۔یاد رہے یہ وہی محمد رضوان ہیں جو 2023ورلڈ کپ کے دوران اسو قت کے چیف سلیکٹر انضمام الحق کیساتھ"مفادات کے ٹکراؤ" کی خبروں کیساتھ میڈیا سکینڈل کا حصہ بنے تھے ۔ ورلڈ کپ 2023کے دوران سامنے آنیوالی میڈیا خبروں کے بعد پتہ چلا تھا کہ محمد رضوان ، بابر اعظم شاہین شاہ آفیریدی ، اور دیگر کئی کھلاڑی  ایک ایسے  ایجٹ طلحہ رحمانی کیساتھ  منسلک ہیں  جو برطانیہ میں رجسٹرڈایک  کمپنی یازو انٹرنیشنل میں بطور ڈائریکٹر شراکت دار  ہیں جس میں چیف سلیکٹر انضمام الحق بھی بطور ڈائریکٹر شراکت دارشامل  ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر محمد رضوان بھی  برطانوی حکومت کی ویب سائٹ پر دستیاب انفارمیشن کیمطابق اسی یازو انٹرنیشنل کمپنی  میں بطور ڈائریکٹر شامل ہیں یہ تینوں ڈائریکٹر کمپنی میں دسمبر 2020میں  مقرر کیے گئے تھے جبکہ سال 2023میں جب انضمام الحق کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا چیف سلیکٹر مقرر کیا تھا تو یازو کمپنی کیساتھ انکے کے تعلق کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں تھیں  ۔

 کیا یہ محض اتفاقیہ تھا ؟لیکن اس سارے معاملے  نے اسوقت بھی کئی سوالات کھڑے ضرور کردئیے تھے کہ کیا کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر کا ایک ایسی کمپنی میں بطور ڈائریکٹر شامل ہونا کھلا تضاد نہیں جس کمپنی میں اسی ٹیم کے نمایاں کھلاڑیوں کا  ایجنٹ بھی بطور ڈائریکٹر شراکت دار ہو۔  پھر میڈیا میں طوفان آنے کے بعد اکتوبر 2023میں انضمام الحق نے قومی ٹیم سے بطور چیف سلیکٹر استعفی ٰاسوقت دیاتھا  جب انہی کی منتخب کی ہوئی ٹیم بھارت میں ورلڈ کپ کھیل رہی تھی ، انضما م الحق نے اس وقت پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ :”میں اپنے عہدے سے استعفی دیتا ہوں تاکہ  پی سی بی میڈ یا میں اٹھائے جانیوالے  الزمات کی شفاف تحقیقات کرنے میں آزاد ہو لیکن اگر کمیٹی نے مجھے بے قصور پایا تو میں دوبارہ اس عہدے کو قبول کرلوں گا “ اسکے بعد  پھر  پی سی بی نے ایک پانچ رکنی  انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی لیکن اسکی کی تحقیقات کا کیا بنا آج تک کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوسکا ، البتہ پاکستان کرکٹ میں ضرور نقصان پہنچا ہے ۔  لیکن پھر پی سی بی نے  اس وقت ایک وضاحت بھی جاری کی تھی کہ محمد رضوان کو انضما م الحق کیساتھ تحقیقات میں شامل نہیں کیا جارہا لیکن بورڈ نے اس بات کی تردید نہیں کی تھی کہ محمد رضوان اس کمپنی میں شراکت دار ہیں یا نہیں ۔اگر اسوقت کرکٹ بورڈ تحقیقات کرکے حقائق قوم کو بتادیتا تو شایدکپتان محمد رضوان نے انڈیا کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد نہایت ڈھٹائی کیساتھ جو پریس کانفرنس کی ہے  اس کی نوبت تک نہ آتی ، اس پریس کانفرنس کے بعد شاید ہی کوئی کرکٹر اس کھلاڑی کو دوبارہ پاکستان ٹیم میں شامل کرنے کی بات کرے ۔

  چیمپئن ٹرافی تو ہار گئے مگر دل نہیں ہاریں گے !

پاکستان چیمپئن ٹرافی کا اب صرف سابق چیمپئن ہے  لیکن میزبان ٹورنامنٹ کے ختم ہونے تک ہم ہی رہیں گے ۔قومی ٹیم کی ہار سے شائقین کرکٹ  کی مایوسی اور ناامیدی ایک طرف لیکن اس ساری مایوسی میں ہمیں اس ٹورنامنٹ کو کامیاب بنانا ہے کہیں یہ نہ کہ پاکستانی شائقین کرکٹ نئے تعمیر ہونیوالے اسٹڈیمزکا رخ ہی نہ کریں، ایسا نہیں ہونا چاہیے  چیمپئن ٹرافی کی  کامیاب میزبانی ہی اب پاکستان کی کامیابی ہوگی، ہار تو ہم گئے ہیں لیکن دل نہیں ہارنے چاہیں 3دہائیوں تک پاکستانی شائقین کرکٹ نے بہت انتظارکرلیا اب پاکستان کی باری ہے،انٹرنیشنل ایونٹس کے دروازےپاکستان پر اب  کھلنے ہی والے ہیں ۔۔۔کیونکہ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں !

مزیدخبریں