ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے کہ منظور پشتین کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے، پتہ چلا ہے کہ 18 جنوری میں طلباء کی ایک تقریب میں منظور پشتین کے ایک بیان پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، ہم تو آیین قانون پر عملدرآمد کی بات کر رہے تھے، منظور پشتین نے بنوں میں پشتونوں کے اتحاد کی بات کی تھی، شاید کچھ عناصر کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ کل ہم دنیا بھر کے پشتونوں کو احتجاج کی کال دے رہے ہیں۔ ہم عدم تشدد کے نظریہ کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔
اس موقع پر علی وزیر کا کہنا تھا کہ دو دن پہلے پرویز خٹک نے مذاکرات کی بات کی تھی اور آج ہمارے قائد منظور پشتین کو گرفتار کیا گیا، ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو حالات کو سازگار رکھنے کی کوشش کریں۔
ممبر قومی اسمبلی علی وزیرنےکہا کہ منظور پشتین گرفتاری پر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس ریاست کے خلاف نہیں ہیں، منظور پشتین کے خلاف آئین کے خلاف بات کرنے کا الزام غلط ہے، ریاست نے بلوچوں، پشتونوں سے بات کرنے کا کہا مگر سیریس بات نہیں کی، آپریشن زدہ علاقوں کے ہمارے لوگ اب بھی دھرنوں میں بیٹھے ہیں، منظور پشتین ان دھرنوں کیلیئے جارہے تھے کہ گرفتار کر لیا گیا۔ ہم بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، مہاجر، پنجابی سب مظلوموں کے ساتھ ہیں، ہم مظلوم لوگوں کیلئے مزاحمت کریں گے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ریاست خوفزدہ نہ ہو کیونکہ یہ صرف پی ٹی ایم کا نہیں بلکہ سول سوسائٹی کا بیانیہ بھی ہے۔
سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے پشتون تحفظ تحریک کے بانی رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب پشاور کے علاقے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کر کے آج صبح عدالت میں پیش کیا گیا۔
منظور پشتین کی گرفتاری پر سیاستدان بشریٰ گوہر نے لکھا کہ وہ اس گرفتاری کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔ بجائے ان کو دکھوں کا مداوا کرنے کے، سکیورٹی فورسز ایسے پشتونوں کی گرفتاریاں عمل میں لا رہی ہیں جو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
خرم قریشی نے لکھا کہ ایک بار پھر ریاست نے ثابت کیا ہے کہ وہ کس قدر کوتاہ بین ہے۔
@gabeeno نے لکھا کہ کل خبر آئی تھی کہ پرویز خٹک نے پشتون تحفظ تحریک سے رابطہ کیا ہے اور انہیں قبائلی علاقوں کی بہتری کے لئے ساتھ مل کر چلنے کی دعوت دی ہے، اور آج منظور کو گرفتار کر لیا گیا۔
صحافی و سماجی کارکن عمران خان نے گذشتہ برس وزیرستان کے جلسے کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ان عوام کے رہنما کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن اسد ذوالفقار خان نے لکھا کہ پاکستانیوں کو سر شرم سے جھکا لینے چاہئیں۔
عمار رشید نے لکھا ہے کہ ریاست ایک غیر مسلح تحریک کو خاموش کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سماجی کارکن ثنا اعجاز کہتی ہیں کہ ریاست خیبر پختونخوا سے ابھرتی ہوئی اس تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ منظور پشتین کو رات تقریباً تین بجے تہکال پولیس نے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا ہے اور وہ پولیس کی تحویل میں ہیں۔ منظور پشتین پر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مقدمہ درج ہے اور اسی سلسلے میں وہ پولیس کو مطلوب تھے۔
آیف آئی آر کے مطابق منظور پشتین پر الزام ہے کہ انہوں نے جنوری میں ہونے والی ایک تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتا اور ریاست سے متعلق غلط زبان استعمال کی۔ پی ٹی ایم رہنما کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی نیا دور نے حاصل کر لی ہے۔