49؍فیصد افراد (تقریباً نصف) نے سال 2019ء کو اپنے اور اہل خانہ کے لئے مثبت جبکہ 37؍ فیصد نے 2018ء کے مقابلے میں سال 2019ء کے بارے میں منفی رائے دی۔ 14؍ فیصدکو اس دوران کوئی مثبت اور منفی تبدیلی دکھائی نہیں دی۔ دو فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اچھے یا برے کے حوالے سے جب یہی سوال 2020ء کے بارے میں کیا گیا تو 39؍ فیصد پرامید اور 28؍ فیصد مایوس دکھائی دیئے۔ 8؍ فیصد نے حالات کے تسلسل کو یکساں بتایا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ 25؍ فیصد نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ اقتصادی عدم توازن نے پاکستان میں حکومت پر عوامی اعتماد کو مجروح کیا۔
مہنگائی سے تقریباً ہر کوئی (99؍فیصد) پریشان ہے۔ اکثریت (61؍ فیصد) کی رائے میں پاکستان کی اقتصادی سمت درست نہیں ہے۔ 44؍ فیصد کا کہنا ہے کہ 2020ء میں مہنگائی سنگین ایشو رہے گا۔
28؍ فیصد کی را ئے میں بیرزوگاری بھی بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے 29؍ فیصد بالائی سماجی واقتصادی طبقے (متمول) کا دعویٰ ہے کہ وہ مطمئن زندگی گزاررہے ہیں۔ حکومت اپنے بیانیہ، بہتری اور پالیسی کے دعوئوں میں اپوزیشن کے مقابلے میں عوامی حمایت کھورہی ہے۔
54؍ فیصد کو کرپشن میں کمی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے دعوے پر یقین نہیں ہے۔ 25؍ فیصد ہی کا کہنا ہے کہ کرپشن میں کمی ہوئی۔ گزشتہ سال تحریک انصاف کی حکومت کو 58؍ فیصد کی حمایت حاصل تھی جو گھٹ کر 20؍ فیصد کمی کے ساتھ 38؍ فیصد رہ گئی۔
واضح اکثریت 77؍ فیصد کی رائے میں حکومت لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے میں ناکام رہی، 53؍ فیصد حکومت سے مطمئن نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی مجموعی کارکردگی پر اطمینان کا رجحان مثبت سے منفی ہوگیا ہے۔ ہر 10؍ میں سے 6؍ افراد (57؍ فیصد) مطمئن نظر نہیں آتے۔
پنجاب حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا جس میں 18؍ فیصد کمی واقع ہوئی۔ عدم اطمینان بھی 61؍ فیصد سے گھٹ کر 42؍ فیصد پر آگیا۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں منفی رجحان پایا جاتا ہے۔ حکومت کے ساتھ بھی عدم اطمینان کا رجحان جاری ہے۔
49؍ فیصد کی رائے میں ان کی بیماری پاکستان ہی میں قابل علاج ہے جبکہ 49؍ فیصد ہی کی ر ئے میں مریم نواز کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔ 44؍ فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ آصف زرداری کی ضمانت اور نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت حکومت اور اپوزیشن میں خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہے۔